پاکستان کا حقیقی دوست اور ہمالیہ سے بلند دوستی رکھنے والا ملک بالآخر اپنے آپ کو دوسری بڑی طاقت منوانے مےں کامیاب ہو چکا ہے، یہ چین کی مسلسل جدوجہد اور درست فکر کے ساتھ درست سمت مےں سفر کا ثمر ہے، چین پاکستان کے بعد آزاد ہوا تھا اور زیادہ آبادی اس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا لیکن اسی کمزوری کو چین نے اپنی طاقت بنا لیا اور آج کی دنیا سے منوا لیا کہ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکا ہے اور یہ سب کچھ کنفیوشس کے فلسفہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ہوا، کیسے ہوا یہ بعد مےں بات ہوگی۔ پہلے قائداعظم اور علامہ اقبال کی بات ہونی چاہئے جنہوں نے پاکستان بنانے کی جدوجہد مےں اپنا فکری اور عملی حصہ ڈالا اور بالآخر ایک بڑی قانونی جنگ جیت کر پاکستان حاصل کر لیا لیکن بدقسمتی سے ہم نے قائداعظم اور علامہ اقبال کی تعلیمات کو نظرانداز کر دیا اگر ہم صرف قائداعظم کی 11اگست 1947ءکی پارلیمنٹ سے تقریر کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر اس پر عمل درآمد کرتے تو آج پاکستان چین کی طرح ایک عظیم ملک بن چکا ہوتا، چین اور پاکستان کے وسائل اور علم کا فرق صرف اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے ندی نالوں بارش اور دریاﺅں کا قیمتی پانی محفوظ رکھنے مےں ناکام ہےں اور سو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا پانی ہمارے ہاتھوں سے تباہی مچاتا ہوا بحیرہ عرب مےں گر گیا دوسری طرف چین نے دریاﺅں کا رخ بدل کر اپنے بنجر علاقے بھی زرخیز بنانے کی ٹیکنالوجی دنیا مےں سب سے پہلے اپنائی ہے۔
چین کو دوسری عظیم طاقت بنانے مےں کنفیوشس کا حصہ اس طرح سے ہے کہ بقول دانشور جمشید چودھری ”کنفیوشس نے دو کامیابی کے اصول دیئے تھے پہلا تعلیم سب کے لئے یعنی سو فیصد لٹریسی ریٹ اور دوسرا تمام انسان مساوی حیثیت رکھتے ہےں یعنی مساوات“ معروف تاریخ دان آرنلڈ ٹائن بی نے کہا تھا کہ تاریخ تسلسل کا نام ہے اور وہی فلسفہ کامیاب رہتا ہے جس کا تسلسل جاری رہے۔ کنفیوشس نے جب اپنی فلاسفی اپنے علاقے کے حکمران کو سنائی تو اس نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس فلسفے کو گلی گلی پھیلا دو چنانچہ کنفوشس دس سال سے زیادہ اپنے پانچ شاگردوں کو لے کر اپنے فلسفہ کا پرچار کرتا رہا اور مفکر کا کام بھی یہی ہوتا ہے کہ اپنی بات کہہ دے کوئی عمل کرے یا نہ کرے، اس سے اسے غرض نہیں ہوتی، کچھ نے فلسفہ کو قبول کیا اور تسلسل کے ساتھ فلسفہ آگے بڑھتے بڑھتے ماﺅ زے تنگ تک پہنچا تو اس نے ریڈ بک مےں دونوں اصول شامل کر دیئے اور لانگ مارچ مےں اپنی دو نکات کو بہت اہمیت دی بعد کی قیادت نے اس فلسفہ کو عملی شکل دی جس کا نتیجہ ظاہر ہو رہا ہے کہ چین دوسری بڑی طاقت بن چکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ پہلی پوزیشن پر بھی آسکتا ہے۔ قائداعظم کے زریں اصولوں کو اگر آج بھی اپنا لیا جائے اور افکار علامہ اقبال سے رہنمائی لی جائے تو پاکستان بھی عظیم ملک بن سکتا ہے نظریہ پاکستان فاﺅنڈیشن تو بارش کا پہلا قطرہ ہے لیکن اس کام کو وسیع پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔
چین کو دوسری عظیم طاقت بنانے مےں کنفیوشس کا حصہ اس طرح سے ہے کہ بقول دانشور جمشید چودھری ”کنفیوشس نے دو کامیابی کے اصول دیئے تھے پہلا تعلیم سب کے لئے یعنی سو فیصد لٹریسی ریٹ اور دوسرا تمام انسان مساوی حیثیت رکھتے ہےں یعنی مساوات“ معروف تاریخ دان آرنلڈ ٹائن بی نے کہا تھا کہ تاریخ تسلسل کا نام ہے اور وہی فلسفہ کامیاب رہتا ہے جس کا تسلسل جاری رہے۔ کنفیوشس نے جب اپنی فلاسفی اپنے علاقے کے حکمران کو سنائی تو اس نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس فلسفے کو گلی گلی پھیلا دو چنانچہ کنفوشس دس سال سے زیادہ اپنے پانچ شاگردوں کو لے کر اپنے فلسفہ کا پرچار کرتا رہا اور مفکر کا کام بھی یہی ہوتا ہے کہ اپنی بات کہہ دے کوئی عمل کرے یا نہ کرے، اس سے اسے غرض نہیں ہوتی، کچھ نے فلسفہ کو قبول کیا اور تسلسل کے ساتھ فلسفہ آگے بڑھتے بڑھتے ماﺅ زے تنگ تک پہنچا تو اس نے ریڈ بک مےں دونوں اصول شامل کر دیئے اور لانگ مارچ مےں اپنی دو نکات کو بہت اہمیت دی بعد کی قیادت نے اس فلسفہ کو عملی شکل دی جس کا نتیجہ ظاہر ہو رہا ہے کہ چین دوسری بڑی طاقت بن چکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ پہلی پوزیشن پر بھی آسکتا ہے۔ قائداعظم کے زریں اصولوں کو اگر آج بھی اپنا لیا جائے اور افکار علامہ اقبال سے رہنمائی لی جائے تو پاکستان بھی عظیم ملک بن سکتا ہے نظریہ پاکستان فاﺅنڈیشن تو بارش کا پہلا قطرہ ہے لیکن اس کام کو وسیع پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔