اداروں کے ٹکرا¶ کے مضمرات

Aug 25, 2012

شوکت علی شاہ

 (1) نہ چاہتے ہوئے بھی‘ حکومت عدلیہ تصادم کے باعث‘ رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ غالب اکثریت سمجھتی ہے کہ عدلیہ حق بجانب ہے۔ اگر بروقت اقدام کر کے یہ ایک ”نااہل اور کرپٹ“ حکومت کے چار سو بڑھتے ہوئے قدم نہ روکتی تو اب تک فیڈرل گورنمنٹ کا فیل بے زنجیر دھاڑتا چنگھاڑتا ہر خشک و تر کو اپنے بے ہنگم وزنی پا¶ں تلے روند چکا ہوتا۔ کرپشن گو اب بھی ہے لیکن اس صورت میں کئی گناہ بڑھ گئی ہوتی۔ کنبہ پروری‘ اقربا نوازی‘ محض گیلانیوں‘ زرداریوں تک محدود نہ رہتی بلکہ پارٹی کا ہر فرد حسب توفیق اس بہتے دریا میں اپنے ہاتھ دھو چکا ہوتا۔ سب کی پانچوں گھی میں ہوتیں اور سر کڑاہی میں نہیں بلکہ کئی کڑاہوں میں ہوتا۔ ”بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ کے مصداق ہر کوئی لمحہ موجود پر یقین رکھتا اور آنے والے کل کا انتظار کئے بغیر آج کو ہی غنیمت سمجھتے ہوئے ہاتھوں سے‘ پا¶ں سے‘ حتیٰ کہ دانتوں سے بھی جو کچھ پکڑ سکتا پکڑ لیتا۔ بابر سے لامحالہ ذہن پارٹی کے بابر اعوان صاحب کی طرف جاتا ہے جو کسی زمانے میں اپنی شان و شوکت‘ طمطراق‘ چالاکی اور عیاری میں اس مغل حکمران سے کسی طور کم نہ تھے۔ ان کے عروج و زوال کی داستان مشہور شاعر انشاءاللہ خان سے بھی ملتی جلتی ہے جو نواب سعادت علی خان کے مصاحب خاص تھے۔ ایک دن ترنگ میں آ کر ایسا نامعقول فقرہ کس گئے (انجب) جس سے نواب صاحب براہ راست متاثر ہوتی تھی۔ نتیجتاً عرش سے فرش پر آ گئے اور نہایت کسمپرسی کی حالت میں رحلت فرمائی۔ بابر اعوان بھی ماشاءاللہ ان کی طرح ثقہ شاعر ہیں اور ان کے ”نوٹس“ والے کلام نے حال ہی میں بڑی ”داد“ پائی ہے۔ بعض شعراءکے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کا کوئی ایک آدھ پھڑکتا ہوا شو سارے کلام پر حاوی ہوتا ہے۔ اعوان صاحب کا شعر خود ان پر بھاری ثابت ہوا ہے۔ داد تو جو ملنی تھی سو مل گئی لیکن خود خاصے دب گئے ہیں۔ لفظوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ تیر کی مانند ہوتے ہیں۔ جو کمان سے نکل گیا سو نکل گیا۔ یہ ہدف ناوکِ بیدار اپنے ہی ہاتھوں ہوئے ہیں‘ کسی ستم گر کا کوئی دوش نہیں۔ حال ہی میں اعتزاز کو جو اعزاز حاصل ہوا ہے اس کا ”کریڈٹ“ بھی خاصی حد تک انہی کو جاتا ہے۔ نہیں تو سیاسی دا¶پیچ اور ہیرا پھیریوں میں اعتزاز ان کے مقابلے میں بالکل اس طرح ہے جس طرح جھارا پہلوان انوکی کے مدمقابل آ کھڑا ہوا تھا۔ نہ جانے کیوں جب بھی پیپلز پارٹی کا ذکر ہوتا ہے‘ ہماری نظروں کے سامنے اعوان صاحب کا یسولا ابھرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم ایک عرصے سے ان کی خداداد صلاحیتوں کے معترف رہے ہیں اور ہیرو نہ سہی ایک بہت بڑا کریکٹر ایکٹر سمجھتے ہیں۔
 (2) دوسرا فریق محسوس کرتا ہے کہ ”ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے“۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جس قدر جھکنا تھا جھک چکی ہے۔ جس قدر ”لپھنا“ تھا ”لپھ“ چکی ہے۔ ایک وزیراعظم یک بینی دوگوش نکالا جا چکا ہے۔ سابقہ سزا یافتہ ہونے کا طوق بھی اس کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اب دوسرے کو گھر بھیجنا اس جمہوری نظام کو ”رول بیک“ کرنے کے مترادف ہو گا۔ لہٰذا "ENOUGH IS ENOUGH"۔ سابقہ وزیراعظم یوسف رضا نے بھی اپنے حالیہ پالیسی بیانات میں کچھ اس قسم کا عندیہ دیا ہے لیکن اب کے سرگرانی اور ہے۔ ہر ایسے عدالتی حکم کو ”ریزسٹ“ کہا جائے گا۔ یہ بیان پارٹی کے ایک ذمہ دار شخص نے دیا ہے جس کی کسی سطح پر بھی تردید نہیں کی گئی۔ گویا معروضی حالات میں ایسے پالیسی بیان ہی کہا جا سکتا ہے۔
 (3) وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حالات جس نہج پر جا رہے ہیں اس سے کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ حکومت عدالتی احکامات پر من و عن عمل نہیں کرے گی۔ بالفرض ایسا ہو جاتا ہے تو پھر عملدرآمد کون کرائے گا؟
گو آئین میں اس کی وضاحت کی گئی ہے لیکن اس میں بھی کئی "IFS and BUTS" نکالے جا سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنے احکامات کے نفاذ کیلئے جس ادارے کو لکھنا ہے اس کا ہر راستہ وزارت دفاع سے ہو کر گزرتا ہے۔ جو حکومت عدالتی احکامات نہیں مانتی وہ خط کو درخوراعتنا کیسے سمجھے گی؟ عدالتوں کا سب رعب داب‘ طمطراق اور احترام قانون کی حکمرانی پر ہوتا ہے۔ جب قانون متنازعہ بن جائے اور اس کی مختلف تاویلیں نکلنے لگیں تو پھر سوائے "CHAOS AND CONFUSION" کے کچھ باقی نہیں بچتا۔
 (4) اس صورت میں کیا ہو گا؟ ایک ایسا سنگین ”ڈیڈلاک“ جو ڈوبتی ہوئی معیشت کو قصر مذلت میں لے جائے گا۔ امن عامہ ہر چہ باداباد کی صورت اختیار کرے گا۔ جمہوریت کا پھول کملا نہیں بلکہ مرجھا جائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کو مجبور کر دیں گی کہ وہ عدالتی احکامات کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ شاید ایسا نہ ہو سکے۔ میاں نوازشریف اور عمران خان اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر انتخابات بروقت ہو جاتے ہیں تو خیال اغلب ہے کہ ان دو میں سے کوئی ایک شخص اگلا وزیراعظم ہو گا۔ ڈیڈلاک کی صورت میں یقیناً تیسری طاقت عنان حکومت اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لے گی۔ پیپلز پارٹی تو اپنی اننگ کھیل چکی ہے۔ اگر جانا ہی ہے تو اس قسم کا کھیل اس کیلئے سودمند ثابت ہو گا۔ ایک تو سیاسی شہادت کا رتبہ ملے گا اور مخالفین کا راستہ بھی خودبخود رک جائے گا۔ بالفرض ایسا ہو گیا تو! تو پھر کیا ہو گا؟ سیاسی شہید اور خود ساختہ غازی وقت کے دریا میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے! اسے آخری نوحہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں