نظریہ پاکستان اور پاکستان مدمقابل

Aug 25, 2013

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ایک رونامہ میں 14اگست کو ایک کالم نگار جو پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر ہیں، کی یہ تحریر میری نظر سے گزری کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ جس دو قومی نظریہ پر نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی وہ مذہب پر قائم ہے۔“ جب کسی مقصد کے لئے کسی نظریے کے تحت کوئی جدوجہد کی جائے اور وہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر اس نظریے کو ایک طرف رکھ کر اس حاصل شدہ مقصد کی دیکھ بھال اور بہتری کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔“ آگے چل کر وہ ”عظیم“ کالم نویس لکھتے ہیں کہ ”ہم نے نظریہ پاکستان کے ذریعے ملک حاصل کیا لیکن اس کے بعد ہمارے لئے ملک اہم تھا لیکن ہم صرف نظریہ نافذ کرنے میں لگے رہے اور جھگڑے میں آدھا ملک گنوا دیا۔“
مجنوں کو عورت اور لیلیٰ کو مرد سمجھنے والے ”دانشور“ نظریہ پاکستان کو پاکستان کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ یہ کتنی نامعقول اور ناقابل فہم بات ہے کہ جس نظریہ کی بنیاد پر اور جس نظریہ پاکستان کے ذریعے ہم نے پاکستان حاصل کیا اس نظریے کو نافذ کرنے کی کوششوں کے باعث پاکستان ٹوٹ گیا۔ یہ نقطہ نظر بھی کتنا مضحکہ خیز ہے کہ نظریہ پاکستان کے تحت پاکستان کا مقصد اور منزل حاصل کر لینے کے بعد ہمیں نظریے کو ایک طرف رکھ کر صرف پاکستان کی دیکھ بھال اور اس کی بہتری کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ پاکستان کی سلامتی سے متصادم کسی چیز کا نام ہے۔
حیدر آباد دکن کے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ”میدان سیاست میں ہندو اور مسلمانوں کی جنگ جاری ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کامیاب کون ہو گا۔ علم غیب تو خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اگر ہم قرآن پاک کو اپنا آخری اور قطعی رہبر سمجھ کر صبر و رضا کے طریقے پر کاربند ہو جائیں اور خدائے پاک کے اس ارشاد کو فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کر سکتیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود اسی طرح کامیاب ہوں گے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران اور روم کی سلطنتوں کو فتح کر لیا تھا۔“
حصول پاکستان کی جنگ جیتنے کے لئے ہمارے لیڈر اور ہمارے جرنیل قائداعظم نے کہا کہ قرآن حکیم کو اپنا قطعی او آخری رہنما بنا لیں۔ کیا صرف تحریک پاکستان کی کامیابی کے لئے قائداعظم، قرآن حکیم کی رہنمائی ضروری سمجھتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ہمیں قرآن سے اپنا رشتہ ختم کر لینا چاہئے تھا۔ قرآن حکیم تو قیامت تک ہمارے لئے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ پاکستان کی بنیاد ہی مسلم قومیت ہے اور مسلم قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ اس پس منظر میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان اسی دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ درحقیقت کلمہ طیبہ نے ہی ہندوستان میں ایک نئی قوم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ پھر 25جنوری 1948ءکو قائداعظم کا یہ ارشاد پڑھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے ”کون کہتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اساس شریعت پر نہیں ہو گی۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ مفسد ہیں۔ ہماری زندگی میں آج بھی اسلامی اصول اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح کہ تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت کی راہ دکھائی ہے۔ مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ لہٰذا اسلامی اصولوں پر عمل کر کے ہم ہر ایک کے ساتھ انصاف کر سکیں گے۔“
قائداعظم کا یہی فرمان نظریہ پاکستان ہے۔ قائداعظم تو فرما رہے ہیں کہ تیرہ سو سال پہلے کی طرح اسلامی اصول آج بھی قابل عمل اور قابل نفاذ ہیں اور اسلامی اصولوں کے نفاذ سے سب کو انصاف ملے گا۔ لیکن نظریہ پاکستان کے دشمن یہ لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی پیش کردہ قرارداد مقاصد منظور کر کے ملک میں مذہبی اجارہ داری کا راستہ ہموار کر دیا گیا جس کے نتیجے میں فساد کی مستقل بنیاد رکھ دی گئی۔ ہمیں بتایا جائے کہ قرارداد مقاصد کا کون سا حصہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی تعلیمات سے متصادم ہے۔ قائداعظم نے 1945ءمیں اپنے پیغام عید میں کہا تھا کہ ”جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، سول، کاروباری، فوجی، عدالتی، تعزیزی اور قانونی ضابطہ حیات جو مذہبی معاملات سے لے کر روزمرہ زندگی کے معمولات تک، روح کی نجات سے لے کی جسم کی صحت تک، فرد سے لے کر اجتماعی حقوق تک اس دنیا میں سزاﺅں سے لے کر اگلے جہاں کی سزا اور جزا تک حد بندی کرتا ہے۔“
قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے کیا تھا بلکہ ہمیں ایک ایسی تجربہ گار حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“ قائداعظم کے الفاظ پر عمل کرتے ہوئے اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ بنا دیں، یعنی پاکستان کو بطور ریاست اسلام کا عملی نمونہ بنا دیں تو یہی نظریہ پاکستان ہے۔ اگر ہم اپنی مملکت کے مسائل و معاملات کا حل کرنے کیلئے ان سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کریں جو پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے بنایا تھا تو یہ قائداعظم کے بقول ہمارے لئے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ قرآن حکیم میں یہی ارشاد ہے کہ ”تمہارے واسطے اللہ کے رسول میں زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔“ رسول پاک کی سیرت فرد واحد کیلئے نہیں بلکہ پوری ریاست کی اجتماعی زندگی کیلئے بہترین نمونہ ہے۔ اس پر اگر ہم عمل کریں گے تو کیا پاکستان مستحکم ہو گا یا کمزور ہو گا۔ نظریہ پاکستان اگر اس سے مختلف ہے تو ہم اسے نہیں مانتے اور اگر یہی نظریہ پاکستان ہے تو پھر کوئی بدبخت ہی اس کی مخالفت کر سکتا ہے۔

مزیدخبریں