نوازشریف کی بھارت سے مثبت رویے کی توقعات‘ اسے دہشت گردی میں ملوث قرار دینے سے گریز ........ بنیادی مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے پائیدار تعلقات ممکن نہیں

Aug 25, 2013

اداریہ

وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا، ہمارے ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک میں مختلف مقامات پر ہونے والے دہشت گردی اور گڑبڑ کے واقعات میں بھارت کا خفیہ ہاتھ ہے تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں ہمسایوں کو بلیم گیم سے احتراز کرنا چاہئے، وہ ہمیں الزام دیتے ہیں اور ہم انہیں الزام دیتے ہیں، اب یہ بلیم گیم بند ہونی چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ بھی ختم ہونی چاہئے۔ ترقی کے لئے ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنا ضروری ہے، آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر اس حوالے سے پیشرفت ہونی چاہئے۔ اگر ہم ملکی خوشحالی چاہتے ہیں تو بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت ہونی چاہئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم کے دوران بھارت کو پاش پاش کرنے کے حوالے سے مخالفانہ نعرے نہیں لگائے، ماضی میں ایسے نعرے لگتے رہے ہیں۔ دراصل میں نے انتخابات سے قبل بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کی تھی۔ برطانوی اخبار ٹیلیگراف سے تفصیلی انٹرویو میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہونا چاہئے، دونوں ملکوں کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل پرامن حل نکالنا چاہئے۔ بھارت کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔طالبان اور بھارت کے ساتھ امن مذاکرات میں کوئی نقصان نہیں۔
قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں مسلمانانِ برصغیر نے جن حالات میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور خود کو ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا‘ اس پر ہندو لیڈرشپ پاکستان کے قیام پاکستان پر آزردہ تھی جس کے مظاہر پاکستان آنیوالے مہاجرین پر ڈھائے جانیوالے مظالم سے نظر آئے۔ قائداعظم تحریک آزادی کے دوران مسلمانوں اور ہندوﺅں کے مابین پیدا ہونیوالی تلخیوں کو نظرانداز کر دینا چاہتے تھے جس کا اظہار انہوں نے 25 اکتوبر 1947ءکو رائٹر کے نمائندے سے انٹرویو میں کیا: ”میں بار بار کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان کی تقسیم باہمی باضابطہ معاہدے کی رو سے ہوئی ہے اس لئے ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آپس میں عہد کرنا چاہیے کہ ہم دوستوں کی طرح مل جل کر رہیں۔ کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں جو ہم پڑوسیوں کی حیثیت میں ایک دوسرے سے ضرورت پڑنے پر مانگ سکتے ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ مادی طور پر‘ سیاسی طور پر‘ اور یوں اقوام عالم میں دونوں مملکتوں کا مرتبہ اور وقار بڑھا سکتے ہیں۔“
قائداعظم کے خیالات کا مثبت جواب دینے کے بجائے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے تقسیم ہند کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جس سے پاکستان بھارت تلخیوں میں مزید اضافہ ہوا اور قائداعظم جیسے تحمل و برداشت میں اپنی مثال آپ شخص کو بھی کشمیر سے بھارت کا غاصبانہ قبضہ چھڑانے کیلئے لشکر کشی کا حکم دینا پڑا جس پر بوجوہ عمل تو نہ ہوا تاہم کشمیر کے حوالے سے قائداعظم کی کمٹمنٹ ضرور سامنے آگئی۔ کشمیر کو قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا‘ نہ صرف بھارت نے اس پر اپنا قبضہ جاری رکھا بلکہ اس نے سیاچن پر قبضہ کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا مزید اظہار بھی کر دیا۔ سرکریک تنازعہ بھی ہنوز حل طلب ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر بھارت اس مسئلہ کے حل کی طرف نہیں آرہا جس پر دونوں ممالک میں تین جنگیں ہو چکی ہیں اور حالات اسی ڈگر پر رہے تو چوتھی جنگ کے خطرے کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ دو ایٹمی ممالک کے مابین جنگ ہوئی تو خوفناک تباہی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
قائداعظم کی خواہش کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین تلخیوں کا خاتمہ ہو جاتا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی ترقی و خوشحالی میں ممدومعاون بنتے تو بہترین جغرافیائی محل وقوع کے باعث پاکستان اور بھارت کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا۔ افسوس کہ دونوں ممالک دوستی کے بجائے دشمنی کے راستے پر چل نکلے‘ اسلحہ کی دوڑ میں اپنے وسائل جھونکنے لگے۔ ترقی و خوشحالی کے بجائے عوام کے حصہ میں غربت ‘پسماندگی اور بدنصیبی آئی۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعہ نے جنم نہ لیا ہوتا تو دونوں ممالک دشمنی کی اس سطح پر نہ جاتے۔ اس میں کچھ کو شبہ ہے کہ مسئلہ کشمیر بھارت نے پیدا کیا ہے۔ وہ اس مسئلے کو خود اقوام متحدہ لے گیا جس نے استصواب کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا‘اسے بھارت نے بھی تسلیم کیا لیکن 64 سال بعد بھی اس پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
میاں نوازشریف کی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش اپنی جگہ‘ کیا بھارت بھی اس پر تیار ہے؟ میاں صاحب نے فرمایا کہ دونوں ہمسایوں کو بلیم گیم سے احتراز کرنا چاہیے۔ بھارت کو جو کہتا ہے‘ وہ اسے الزام نہیں سمجھتا‘ ہم یکطرفہ طور پر الزام تراشی کا اعتراف کررہے ہیں۔ میاں صاحب نے بھارت کو پاش پاش کرنے کی بات نہیں کی۔ بھارت تو 1971ءمیں ایسا کر بھی چکا ہے اور اب بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔ سابق آرمی چیف وی کے سنگھ نے 96 گھنٹے میں اسلام آباد پر قبضہ کرنے اور موجودہ بکرم سنگھ نے پاکستان کو سنبھلنے کا بھی موقع نہ دینے کی دھمکی دی ہے۔ اسلحہ کی دوڑ بھی ختم ہونی چاہیے لیکن یہ دیکھا جائے کہ یہ دوڑ شروع کس نے کی ہے؟ کیا بھارت بھی اسکے خاتمہ پر تیار ہے؟ میاں صاحب بھارتی وزیراعظم واجپائی کو پاکستان کے دورے پر لانے کو عظیم کارنامہ سمجھتے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیشر فت قرار دیتے ہیں۔ کیا اس وقت یا آج بھی واجپائی اور انکی پارٹی نے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کے موقف سے رجوع کیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
میاں نوازشریف بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اظہار نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ انکے ذرائع نے ایسا کہا ہے۔ کیا بھارت پاکستان میں دہشت گردی سے قبل باقاعدہ پاکستان کو اطلاع دے اور میاں صاحب بھارتی ذرائع سے بتائے جانے پر یقین کرینگے؟ ایل او سی پر دو ہفتے سے جاری بھارتی جارحیت تو نوشتہ دیوار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات نیک خواہشات‘ اچھے جذبات‘ پیار کی پینگوں اور تجارت سے بہتر اور دیرپا ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس کیلئے بنیادی مسئلہ حل کرنا ہو گا جس کیلئے بھارت تیار نظر نہیں آتا۔ پاکستان بھارت مذاکرات میں یقیناً حرج نہیں ہے مگر اس کیلئے فریق ثانی کو بھی تیار ہونا چاہیے جسے ہر دفعہ مذاکرات کی میز الٹنے کی عادت ہے۔
عالمی برادری اور امن کے ٹھیکیدار ممالک کو دونوں ممالک کے رویے پر غور کرنا ہو گا۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے کیا کررہے ہیں اور کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان کے اندر ان کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے۔ اسکی پاکستان پر جارحیت ہے جس میں حالیہ دنوں میں ایک کیپٹن سمیت تین درجن جوان شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ جنگ یقیناً تباہی لاتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے کبھی جارحانہ عزائم کا اظہار نہیں ہوا۔ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ آخر پاکستان کب تک بھارت کی جارحیت اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کو برداشت کرتا رہے گا۔ حالات جنگ کی طرف گئے تو اسکی ذمہ داری بھارت پر عائد ہو گی۔ عالمی برادری حالات کو اس سطح پر جانے سے روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔

مزیدخبریں