عمران خان اور علامہ قادری کی دھرنا سیاست کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی ترغیب دینے سے تعبیر کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں موجود تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی اپنی قراردادوں کے ذریعے جمہوریت، پارلیمنٹ اور آئین کے تحفظ کا عہد کیا تو سسٹم کے ناقدین کی جانب سے پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ اس سسٹم سے مفادات سمیٹنے والے ایک ہی تھلی کے سارے چٹے بٹے ”سٹیٹس کو“ برقرار رکھنے کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ہیں، پھر سابق صدر آصف علی زرداری لاہور آ کر وزیراعظم میاں نواز شریف کے لنچ میں شریک ہوئے اور میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دیا تو دھرنا سیاست والوں نے پھر پراپیگنڈہ کیا کہ اقتدار کی باریاں ایک دوسرے کے ساتھ طے کرنے والے اکٹھے ہو کر اپنی اگلی ”باریوں“ کو یقنیی بنانا چاہتے ہیں۔ مجھے سسٹم میں موجود قباحتوں سے ہرگز انکار نہیں اور ان قباحتوں کی بنیاد پر ہی میں سسٹم کی جامعیت کے ساتھ اصلاح کی وکالت کرتا رہا ہوں۔ اس حقیقت کو یقیناً جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ موجودہ انتخابی نظام میں صرف دھن، دولت اور اختیارات والے اشرافیہ طبقات ہی کے لئے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اہتمام کیا گیا ہے اور عوام الناس میں موجود پسے، پسماندہ، غریب طبقات یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی صفوں میں سے ان کا کوئی حقیقی نمائندہ منتخب ہو کر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جائے گا۔ اگرچہ گذشتہ انتخابات کے موقع پر سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے انتخابی اصلاحات کرتے ہوئے بعض ایسے قوانین وضع کر دئیے تھے جن پر حقیقی معنوں میں عمل کر کے کروڑوں کے بے ہنگم انتخابی اخراجات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا مگر اس کے باوجود عام طبقات میں سے کسی کے امیدوار بننے کی کی گنجائش نہیں نکل پائی تھی کیونکہ الیکشن کمشن نے قومی اور صوبائی امیدواروں کے انتخابی اخراجات 50 لاکھ اور 30 لاکھ سے کم کر کے دس لاکھ اور پانچ لاکھ مقرر کئے مگر سیاسی جماعتوں نے اپنے پارٹی ٹکٹ کی رقم میں کوئی کمی نہ کی۔ عام طبقات میں سے تو کوئی شخص اپنے انتخابی اخراجات کے لئے دس یا پانچ لاکھ روپے بھی لانے کا نہیں سوچ سکتا چہ جائیکہ کہ پارٹی ٹکٹ اور پارٹی فنڈ کے لئے لاکھوں روپے لانے کی پوزیشن میں ہو، اس طرح موجودہ انتخابی نظام میں صرف دھن دولت والے مراعات یافتہ طبقات ہی کے لئے انتخابی عمل میں شریک ہونے کی گنجائش نکالی گئی ہے جس کی بنیاد پر موروثی سیاست نے تقویت حاصل کی ہے اور سیاسی جماعتوں کی قیادتوں میں بھی اسی بنیاد پر موروثی سیاست کا غلبہ ہوا ہے جس کے تحت پارٹی قیادت ایک خاندان کی باندی بن کے رہ جاتی ہے۔
اس تناظر میں جامع اور مو¿ثر انتخابی اصلاحات کے بغیر جمہوریت کے حقیقی مفہوم کو مروجہ جمہوری نظام پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سلطانی¿ جمہور میں جمہور کو حکمران بنایا گیا ہے تو اس کی منتخب ایوانوں میں اتنی تعداد میں موجودگی ضروری ہے جو اپنے طبقہ کے فلاح کے لئے کسی آئینی اور قانونی شق میں ترمیم و تبدیلی کے لئے اپنی عددی اکثریت کے باعث مو¿ثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو مگر قیام پاکستان سے اب تک کے انتخابی عمل میں براہ راست انتخابات کے ذریعے غریب طبقات کا کوئی نمائندہ منتخب ہو کر ایوانوں میں نہیں پہنچ سکا۔ اس انتخابی کلچر میں پارٹی ٹکٹ بھی ”فلاں ابن فلاں“ کے فارمولے کے تحت تقسیم ہوتا ہے اور انتخابی اخراجات کے متعینہ پیمانے کو عبور کر کے فلاں ابن فلاں ہی منتخب ہو کر نمائندہ فورموں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جنہیں جمہور کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے مگر جمہوریت کے پاسبان ان منتخب فورموں پر سارے وڈیرے، جاگیر دار اور سرمایہ دار اپنی ذات برادری کے ڈنکے بجاتے ہوئے براجمان نظر آتے ہیں جنہیں عام آدمی کے روٹی روزگار، غربت، مہنگائی کے مسائل کا خود کبھی سامنا نہیں کرنا پڑتا، اس لئے انہیں عوامی مسائل کے حل کے لئے کسی قانون سازی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس بنیاد پر تو جمہوری نظام حقیقی معنوں میں جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اگر ملک میں کوئی ایسی کرشماتی قیادت موجود ہو یا پیدا ہو جائے جو فی الواقع عوام الناس کو اس فرسودہ نظام سے خلاصی دلانے اور حقیقی معنوں میں جمہور کی حکمرانی رائج کرنے کا درد دل میں رکھتی ہو تو وہ عوام کی آواز بن کر اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے جس سے قیام پاکستان کا وہ اصل مقصد بھی پورا ہو سکتا ہے جس کی خاطر بانیان پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال کے دل میں برصغیر کی مقہور مسلم اقلیت کو انگریز اور ہندو کے استحصالی نظام سے نجات دلا کر ان کے لئے الگ وطن کے حصول کی تڑپ پیدا ہوئی تھی۔ عمران خان اور طاہر القادری نام تو بے شک ایسی ہی تبدیلی اور انقلاب کا لیتے ہیں جو فرسودہ اور دھن دولت والے مراعات یافتہ طبقات کے آلودہ انتخابی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا باعث بن سکتا ہو، مگر ان کی ذاتی زندگی کے مظاہر ان کے نعروں دعوﺅں اور وعدوں کی ضد نظر آتے ہیں اگر ان کے دل میں محض اپنے اقتدار کی تڑپ نہ ہوتی اور ان کی پارٹیوں میں جماعتی اور پارلیمانی تنظیم سازی موروثی سیاست سے پاک نظر آتی تو دس پندرہ ہزار نہیں فی الواقع لاکھوں کی تعداد میں عوام الناس اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل اور اپنی آسودگی کی خاطر ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ان کی ہر کال پر لبیک کہتے اور مرتے دم تک ان کا دم بھرتے نظر آتے۔ مگر یہ جذبہ، یہ تحرک اور حقیقی تبدیلی کا باعث بننے والی ایسی سوچ ان کے سیاسی ایجنڈے کے کسی کونے کھدرے میں بھی پرورش پاتی نظر نہیں آتی۔ عمران خان اقتدار کی باریاں لگانے والوں پر تو چڑھ دوڑے نظر آتے ہیں مگر اپنی باری کے لئے بے صبرے ہوئے جا رہے ہیں، ان کا مطمع¿ نظر ہر صورت وزارتِ عظمیٰ کی گدی پر براجمان ہونا ہے جس کے لئے وہ آئندہ انتخابات تک صبر نہیں کر پا رہے اور اپنے سیاسی مستقبل کے لئے اندھیرا پا کر ملک، مملکت اور عوام سب کو اندھیرے کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں۔ وہ ذرا قوم کے سامنے اپنے ان انتخابی امیدواروں کے چہرے تو لائیں جنہیں انہوں نے راندہ¿ درگاہ مقہور عوام الناس کی صفوں میں سے اٹھا کر اپنی پارٹی کا امیدوار بنایا ہو اور اس کے انتخابی اخراجات پارٹی کے فنڈ میں سے برداشت کئے ہوں۔ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ انہوں نے بھی گزشتہ انتخابات میں پورے دھڑلے کے ساتھ پارٹی ٹکٹ ان ”سٹیٹس کو“ والی جماعتوں ہی کی طرح فروخت کئے جن کے خلاف وہ آج اپنے نئے پاکستان کا شور و غوغا کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے بھی مراعات یافتہ طبقات میں سے اپنے امیدوار لے کر ان کے دھن دولت کے بل بوتے پر فرسودہ انتخابی کلچر کو بڑھاوا دیا ہے اور اپنی آنے والی سات نسلوں کے لئے اپنا کچن محفوظ کیا ہے تو صرف وزیراعظم کا استعفیٰ لے کر وہ موجودہ فرسودہ انتخابی نظام میں اصلاح کا کوئی قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں اور دوسرے صاحب علامہ طاہر القادری کی کیا بات کی جائے جو اس وطنِ عزیز اور راندہ¿ درگاہ عوام کی بہتری کی خاطر اپنی اور اپنے خاندان کے کسی فرد کی کینیڈین شہریت سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں، اگر وہ آج کینیڈا کی شہریت ترک کرنے کا اعلان کر دیں تو میں خود کو ان کے مریدین میں شامل کر لوں گا۔ اب وہ سسٹم کے مکمل خاتمہ کے بغیر کسی بات پر آمادہ ہی نہیں ہو رہے مگر اس کے خاتمہ کی صورت میں کس نے عنانِ اقتدار سنبھالنی ہے اور انتخابات کس نے کرانے ہیں وہ آج تک قوم کو اس بارے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ اگر انہوں نے اپنے اتھل پتھل ایجنڈے کے تحت اقتدار کی باگ ڈور پھر انہی ماورائے آئین اقدام والوں کو تھمانی ہے جنہیں قوم پہلے ہی چار بار بھگت کر ”نکّو نک“ ہو چکی ہے تو پھر ہم باز آئے ایسی محبت سے، اٹھا لو پاندان اپنا۔ گذشتہ دو ہفتے سے جاری اس دھرنا سیاست نے ملک کو اقتصادی طور پر اور بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کتنا بھاری اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، دھرنا باز حضرات اس کا جائزہ لیں اور عوام کے جذبات سے مزید کھیلنے سے تائب ہو جائیں۔ انقلابی تبدیلی یقیناً عوام کا مطمع¿ نظر ہے مگر انہیں ایسا انقلاب ہرگز مقصود و مطلوب نہیں جو انقلاب لانے والوں کی موروثی سیاست کو بڑھاوا دے کر پسے پسماندہ عوام کے لئے مزید قہر پر منتج ہو۔ اگر اس سسٹم میں رہ کر آپ سسٹم کی اصلاح نہیں چاہتے تو آپ سیدھے سیدھے ریاکار ہیں جن سے عوام کا کیا لینا دینا بھائی صاحب! دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا۔
”اٹھا لو پاندان اپنا“
Aug 25, 2014