”شہبازشریف ویثرن “اورپنجاب

میاںشہبازشریف سات سال سے زائد عرصے سے پنجاب کے حکمران ہیں۔ اس سے قبل 1997-99 میں وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں جبکہ1985سے لیکر 1993 تک بھی حکومتی معاملات میں شریک رہے ہیںجس کے نتیجے وہ ایک وسیع تجربہ کے مالک بن چکے ہیں حکومتی معاملات اور عوامی فلاح وبہبودکے منصوبوں میں اپنی ایک مخصوص سوچ رکھتے ہیں۔ وزیروں اورافسروں کی بہترین ٹیمیں انکے ساتھ کام کرچکی ہیں جس سے انکی شخصیت اور قیادت کو مزید نکھرنے کا موقع ملا ہے۔ دسمبر2000میں میاں نوازشریف اوربے نظیر بھٹو شہیدکے درمیان ہونیوالے اتحاد اے آر ڈی میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے ساتھ بطورانچارج میڈیاکے کام کرنے کاموقع ملاتھا۔ 2000سے لیکر2006تک میاں شہبازشریف سے سعودی عرب نیویارک اورلندن میں بے شمارملاقاتیں ہوئیں اورانکے بھرپورخیالات سننے کاموقع ملا۔وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد 2008اور 2009 میں بھی اکثران سے ملاقات رہتی تھی جس میں پاکستان کی سیاست اورجمہوریت کامستقبل کے موضوع پربات چیت ہوتی رہتی تھی۔موجودہ دور حکومت 2013 میں شروع ہواجس میں میاں شہبازشریف نے انرجی، سڑکیںاورترقیاتی سکیموں سمیت عوامی ضرورت کے بے شمار ادارے قائم کئے ہیں۔ میاں شہبازشریف کے بعدحکمران پارٹی کی لیڈرشپ پر نظر دوڑائیں تو رانا ثنااللہ کے علاوہ کوئی نظرنہیں آتا۔ بیوروکریسی کابھی یہی حال ہے۔ کسی محکمے میں کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ انرجی ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری جہانزیب خان اور سیکرٹری اسد گیلانی بجلی کے منصوبوں کیلئے دن رات کام کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ حکمران پارٹی کی سیاسست ”بجلی“ پر انحصار کرتی ہے۔ لوڈشیڈنگ قائم رہتی ہے تو2018 میں حکمرانی دوبارہ ملنے کاخواب پورا ہونا مشکل ہو جائیگا۔ یقیناً میاں شہبازشریف کواس بات کا احساس ہو گا پھر احساس کیوں نہ ہوانہوںنے اپوزیشن میں رہتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کئے تھے اورمینار پاکستان کیمپ بھی لگائے تھے اس لئے مجھے امیدہے کہ میاں شہباز شریف اور انکی ٹیم جہانزیب خان اور اسدگیلانی ضرورکارکردگی دکھائے گی۔ خوشی کی بات ہے کہ محکمہ انرجی کے تحت پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں53 ہائیڈل،کول، بائیوگیس، Wind اور سولرکے منصوبے لگ رہے ہیں لیکن جب میں انکی سیاسی اورافسروں کی ٹیموں کو دیکھتا ہوں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ خزانہ، کوآپریٹو، صحت، بلدیات، تعلیم، آبپاشی، زراعت، خوراک اور دیگر محکموں کے وزیرکسی بھی جگہ نظر نہیں آتے۔ کبھی ان کا سیاسی بیان نظر نہیں آتا۔ کبھی عمران خان کو جواب دیتے نظرنہیں آتے۔کوئی ٹی وی ٹاک شو دیکھ لو ماسوائے رانا ثنااللہ کوئی دوسرا وزیر نظر نہیں آتا۔ اگر یہ وزیر ٹیکنو کریٹ ہوتے توکوئی فرق نہ پڑتا لیکن یہ توممبران اسمبلی منتخب ہو کر وزیر بنے ہیں تو پھرسیاسی میدان میں میاں شہبازشریف کوFollow کیوں نہیں کرتے۔ اسی طرح اوپرسے لےکر نیچے تک کوئی افسر میاں شہباز شریف کےVision کو لےکر آگے نہیں بڑھ رہا۔ میاں شہبازشریف نے راجہ انورکو ساتھ ملاکردانش سکول کا آئیڈیا دیا جو کہ شاندار کامیابی حاصل کر رہا ہے پھر راجہ انور پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے چیئرمین بنے اور پنجاب کے ریموٹ ایریا میں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سکول بنائے گئے لیکن آج حالت یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین، ایم ڈی اور ڈپٹی ایم ڈی ایک Page پر کام نہیں کر رہے۔ ضلع جھنگ کے دیہاتی ایریاسے کچھ پڑھے لکھے نوجوانوں نے درخواست دی جس کو نامکمل جان کر مسترد کر دیا گیا انہوں نے چھ ماہ کی مسلسل کوشش کرتے ہوئے کمی کو پورا کیا اور دوبارہ درخواست دی بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ وہ درخواست بھی پرانی رپورٹ کی بنیاد مسترد کر دی گئی انہوںنے اپیل کی کہ ہم نے خادم اعلیٰ کے Vision کو آگے بڑھاتے ہوئے سکول کی درخواست دی تھی اور تمام اعتراضات دور کر دئیے ہیں اس لئے اس کو منظورکیا جائے لیکن بدقسمتی سے ”شہبازشریف ویژن“ سرخ فیتہ کی نظر ہو گیا۔ اس طرح عرصہ درازسے افسران او ایس ڈی بنا کر رکھے ہوئے ہیں وہ تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن ان سے کام نہیں لیا جا رہا۔ کئی افسروں کو تو او ایس ڈی کی بجائے پوسٹیں بھی دی ہوئی ہیں لیکن خانہ پری کیلئے۔ انکے پاس نہ کام نہ دفتراورنہ گاڑی ان کو حکم یہ ہے کہ دفتر آنے کی ضرورت نہیں۔ یہی حال پولیس کا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب عام آدمی کو ملنے کیلئے تیار نہیں پولیس افسران نے بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور اگر کوئی سائل اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جائے تو پولیس افسران ملنے کو تیار نہیں۔ پاکپتن شریف کا رہائشی امریکن وکیل نے آئی جی پولیس سے ملنے کیلئے 15دن گزار دئیے۔ وہ ملے بغیر مایوسی کے عالم میں واپس چلا گیا یہ حالت ہے پنجاب کے سول اور پولیس کے محکموں کی۔کیا یہ ”شہباز شریف ویژن“ ہے کہ لوگوں کیلئے کچھ نہ کیا جائے؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے بلکہ بدقسمتی سے شہباز شریف کیساتھ چلنے والوں کی کمی ہے۔ وزیراعلیٰ کو اپنے وزیروں کی ٹیم پر ازسرنو غورکرنا چاہئے۔ ان سے محکموں کے کام کیساتھ ساتھ سیاست کاکام بھی لے۔ اچھا منتظم بنانے کےساتھ ساتھ ایک سیاستدان بھی بنایا جائے۔ بیورو کریسی کو سیدھا چلانے میں شہباز شریف کا کوئی ثانی نہیں تھا لیکن اب کیا ہو گیا ہے؟ پنجاب کی موجودہ بیورو کریسی بڑی ڈھیلی ثابت ہو رہی ہے۔ ”شہبازشریف ویژن“ کو آگے لےکر چلنے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کام کر رہی ہے لوگ شاباش دے رہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو بہت تکلیف ہو گی لیکن آج تک یہ شکایت نہیں ملی کہ پی ایف اے نے کوئی غلط کیا یا زیادتی کی ہو یہ تو ہوا ”میاں شہبازشریف ویژن“۔ محکمہ تعلیم میں کیا ہو رہا ہے کسی کو خبر نہیں سات سالوں میں کتنی یونیورسٹیاں بنیںکتنے کالج بنے اورکتنے سکول بنے اس کا لوگوں کو علم ہونا چاہئے۔ بوٹی مافیاکے خاتمہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ اسی طرح محکمہ صحت کی کارکردگی صرف اس حد تک نظرآتی ہے کہ انہوںنے میڈیکل سٹورز پرچھاپے مارنے شروع کر دیئے ہیں اور بڑے بڑے ضلعوں میں ہسپتالوں کو پرائیویٹ سیکٹرکے ساتھ مل کر چلانے کیلئے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ چھوٹے ہسپتال تو ایک طرف بڑے بڑے ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ خواجہ سلمان رفیق نوجوان ہیں اور ہمت کر رہے ہیں لیکن صحت کے شعبہ کو بہت بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ حکومت نے جعلی ادویات کے خاتمے کیلئے تو ادارہ بنا دیا لیکن اسکی کوئی عملی شکل نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب میں کتنے چھوٹے اور بڑے ہسپتال بنے ہیں اور میڈیکل کی تعلیم کیلئے کتنے ادارے بنائے گئے یہ معلومات بھی دینی چاہئیں۔ تعلیم اور صحت کسی بھی معاشرہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان سے ہر شہری کا تعلق ہے جتنی زیادہ تعلیم ہوگی معاشرہ اتناہی زیادہ ترقی کرے گا جتنے زیادہ صحت کے مراکز ہونگے اتنا ہی معاشرہ پھلے پھولے گا۔
پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے ملک کی حکمرانی پنجاب سے ہو کر آتی ہے۔ پنجاب کی مثال کو سامنے رکھ کر دوسرے صوبے اور پاکستان کی حکومت چلتی ہے۔ ایل ڈی اے کے تحت لاہور میں شاندار ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اس طرح ملتان، سرگودھا، بہاولپور اور دور دراز علاقوں میں بھی ترقیاتی کام نظر آنے چاہئیں۔

ای پیپر دی نیشن