یہ سیلاب ہے یا احتساب؟ لمحہ فکریہ

قارئین سیلاب کے حوالے سے پچھلے کئی ہفتوں سے عوام کی آنسوﺅں سے متلاطم نظریں جتنے بڑے بڑے جان لیوا تلاطم دیکھ چکی ہیں بلکہ دیکھ رہی ہیں، جس طرح دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں، انسانوں کی لاشیں جگہ جگہ بکھری پڑی دکھائی دیتی ہیں، وبائیں پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے، املاک اور فصلیں اجڑ گئی ہیں ایسے حالا ت میں سیلاب کو صرف سیلاب کہنا نہ صرف یہ کہ خود لفظ سیلاب کے معنی کے ساتھ زیادتی ہو گی بلکہ خود فریبی بھی ہو گی دراصل اصول فطرت ہے لیکن صد افسوس ہمارے کالے کرتوتوں کے صدقے میں غیرت خداوندی بااندازِ دیگر جوش میں ہے پاک مذہب کے نام پر حاصل کئے گئے۔ قارئین سوچنا یہ ہے کہ کبھی آخر کیوں آسمان اپنے ساتوں در کھول کر پانی برسانا شروع کر دیتا ہے؟ زمین کیوں اپنے کلیجے میں جمع شدہ پانی اگل دیتی ہے؟ ایک نظر دیکھا جائے تو گھروں کی ننھی نالیاں ندیاں بن چکی ہیں۔ ندیاں دریا اور دریا سمندروں میں ڈھل گئے ہیں۔ تاریخِ عالم شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم کا اخلاقی زوال اس مقام پر پہنچا کہ دین، اخلاق اور مذہب کے الفاظ اس کےلئے اجنبی بن گئے تو پھر آسمان سے عذاب اترنا شروع ہوئے ماحول اور حالات نے انسان کو ایسی آزمائش میں مبتلا کیا کہ انسان، انسان کو کھانے کےلئے دوڑ پڑا لیکن ساتھ ہی رب رحیم کے اس رحم کی بھی امت مسلمہ شاہد ہے کہ کس طرح پرندوں کی چونچیں پتھروں سے بھر گئی تھیں جنہوں نے ہاتھیوں کو بھس بنا ڈالا تھا کیا اسے طوفان نوح یا دنہیں رہا جب زمین آسمان کا دامن ایک ہو گیا تھا؟ دنیا تہہ آب آ گئی تھی مگر ان چند اللہ کے پیاروں کے سوا جو اسکے تابعدار تھے ۔ کیا مسلمانوں کے ذہن سے وہ فتح مبین مٹ گئی ہے جب انکے محض تین سو تیرہ افراد تین ہزار کے لشکر پر طاقت کا سیلاب بلکہ عذاب بن کر ٹوٹے تھے اور جیت گئے تھے۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیںجن کی پیشانیاں سجدے میں نہیں جھکتیں گندے کیچڑ پر اوندھا ہونا پسند کرتی ہیں ہم زکوٰة کے نام پر پیسہ اکٹھا کرکے اکمل بصیر کو دھوکہ دینے حج کے نام پر شاپنگ کرنے چلے جاتے ہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ ہمارے بھرے پیٹوں میں سے اور حلق سے گندے پانی کی طویل لہریں انگلیاں پھیر کر سب کچھ اگلوا لیتی ہیں۔ ہمارے بھاری سازوسامان تنکوں کی طرح بہہ کر ہاتھوں سے نکل جاتا ہے قحط کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ ہم روحانی، ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے بھٹکے ہوئے انسانوں نے اپنے رہنما اول و آخر کو بھلا کر اپنے آپ کو خود تباہ کر لیا ہے اسکی کتاب نور کو طاق پر رکھ دیا ہے جس کا حرف حرف وحی، لفظ لفظ معجزہ ہے جسکے ہر نقطے میں ہماری ہر قسم کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کی حتمی شفا موجود ہے جو طب کے معنوں میں بھی ایسی کلی حکیم ہے جسکے نازل ہو جانے کے بعد مرض الموت کے علاوہ کسی دوسری بیماری کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا لیکن ہم ناسمجھی کے مارے ہوئے سمجھدار انسانوں نے صرف ایک کتاب شفا کو بھلا کر اپنے لئے سینکڑوں بیماریاں پیدا کر لی ہیں۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ پانی کے سیلاب کے علاوہ دوسرے سیلاب کے حوالے سے وطن عزیز میں کیا ہو رہا ہے؟ جی ہاں آج گھر گھر پانی کے سیلاب کے علاوہ فحاشی کا سیلاب بھی آیا ہوا ہے۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے بصیرت اور بصارت سے محروم سچ مچ کی اندھی قوم کو سوائے سیلاب کے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ جبکہ میرے سیلاب والے خدا کو زمین کے ذرے ذرے پر ہونےوالے تمام تر کالے حالات و واقعات کے سیلاب کا بھی علم ہے۔ یاد رکھئے رب رحیم کی عدالت کوئی زمینی عدالت نہیں ہے جس میں فوری طور پر کان کے بدلے کان، زبان کے بدلے زبان اور آنکھ کے بدلے آنکھ نکال لینے کا حکم ہے۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ انسانی تجسم میں آ کر ہر پل ہر انسان کے ہر عمل کے بدلے میں انفرادی قیامت کھڑی کر سکتا ہے کیونکہ اس نے حساب کیلئے قیامت کا ایک حتمی دن مقرر کر رکھا ہے لیکن دنیا میں بھی انسان کے حساب احتساب کے عمل کو جاری و ساری رکھا گیا ہے لیکن یہ کون سمجھے گا؟ اور کون یاد رکھے گا کہ ہم ہر لمحہ ایک نامعلوم انداز سے ایک حتمی حساب کے فوکس میں ہیں خاص طور پر توبہ سے توبہ تائب ہماری قوم کو کون یہ سمجھائے گا۔ اٹھو اپنی روشن تاریخ کو آنکھوں سے لگا کر پھر سے زندہ کرو۔ یہ جو حوا کی بیٹی اپنے چار مضبوط رشتوں کے کیلوں میں جکڑی چوباروں پر مصلوب ہے اسے اتار لو وہ تھک گئی ہے۔ اسکی آبرو کو محفوظ کر دو۔ اسے سگے باپ اور بھائیوں کے گھر میں رات بے فکری کی نیند سلانے کا چارہ کریں۔ فحاشی کے اڈے عریاں تھیٹر سربمہر کر دو۔ اپنے اقوال کھرے اور اعمال ٹھیک کریں۔ نیتیں راست کر لیں۔ قرآن کو طاق پر رکھنے کے بجائے سینوں میں اتار لو کہ یہ طاقچوں تک سیلاب کا پانی پہنچ جاتا ہے۔ سینے اسکی حتمی اور محفوظ ترین پناہ گاہ ہیں۔ حضور پرنور کے در پر جا کر شفاعت کی درخواست کرو۔ اپنے سچے رحیم و کریم سے اپنے اشک ندامت کے سیلاب میں ڈوب کر اپنے گناہوں، خطاﺅں کی کچھ اس طرح معافی مانگو کہ ہماری آہیں، دعائیں مستجاب ہو جائیں اور ہم زمینی و آسمانی آفتوں سے محفوظ ہو جائیں اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...