مہنگائی کا خاتمہ…ڈالر پچاس روپے کا

Aug 25, 2015

ڈاکٹر محمد بشیر گورایا

جب سے پاکستانی کرنسی کو ڈالر سے لنک کیا گیا ہے دیکھنے میں آیا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل اور سونے کے ریٹ کم و بیش ہونے سے پاکستانی معیشت پر گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے مشاہدہ سے سامنے آرہا ہے کہ اگر پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو آٹا، دال، سبزی گویا ضروریات زندگی کی ہر چیز ملک کے کاروباری حضرات مہنگی کرتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی کنزیومر(گاہک۔consumer) اگر دکاندار یا سٹاکسٹ سے بات کرتاہے کہ کل تک آٹے کا ریٹ 260روپے فی تھیلا تھا آج280کیوں ہو گیا ہے؟تو جواب یہی ہوتا ہے کہ پیٹرول مہنگا ہو گیا ہے اور ضروریات زندگی کی ہر چیز پٹرول کے ریٹ سے منسلک ہے خریدار بے چارا خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔
لیکن 2014ء کی دوسری ششماہی سے عوام الناس دیکھ رہے ہیں کہ پٹرول اور سونے کی قیمتیں عالمی مارکیٹ اور پاکستانی مارکیٹ میں بھی متواتر گِر رہی ہیں اور اب تک پٹرول اور سونے کی قیمتیں تقریباً ایک تہائی کم ہو چکی ہیں مگر سٹاکسٹ اور دکاندار حضرات آٹے، دال اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ کوئی خریدار سوال کرتا ہے کہ اب تو پٹرول اور سونے کی قیمتیں اس قدر کم ہو گئی ہیں اور آپ ضروریات ِ زندگی کی قیمتیں متواتر کیوں بڑھاتے جا رہے ہیں تو وہ حضرات جواب میں کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ جب خریدار کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور سٹیٹ بنک تو ڈالر کی قیمت نہیں بڑھا رہے تو جواب ملتا ہے کہ مارکیٹ میں تو ڈالر بلیک میں مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے بدیں وجہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نیچے آنے کی بجائے اوپرہی اوپرجا رہی ہیں۔
اگر ہم پاکستانی کرنسی کی قدر (Value)کا دیگر ممالک کی کرنسی کی قدر (Value)کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو عجیب صورت ِحال سامنے آتی ہے ۔ بھارتی کرنسی کی قدرکونگاہ میں نہ بھی لائیں تو بنگلہ دیش، ایران اورافغانستان کی کرنسیوں کی قدر کو تو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ 1971ء کی جنگ، بنگلہ دیش کا معرضِ وجود میں آنا، ایران عراق جنگ افغانستان پر روسی یلغار اور پھر نائن الیون کے وقوعہ کے بعد نیٹو افواج کی افغانستان میں آمدکے سبب مذکورہ ممالک کی کرنسیوں کی قدر بالکل زیرو ہو کر رہ گئی تھی۔گو پاکستانی کرنسی کو بھی 1971ء کی جنگ کے سبب دھچکا سہنا پڑا۔ مگر بنگلہ دیشی کرنسی کی قدر شروع میں پاکستانی کرنسی کی قدر سے بہت ہی کم تھی اسی طرح افغانستان کی کرنسی کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا کہ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں افغانی کرنسی نہایت قلیل قدر (Value)تک آگئی تھی۔ ایرانی کرنسی کا راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ سن 1990ء میں ایک سو ڈالر کے بدلے ایرانی ریالوں سے میرا بریف کیس بھر گیا تھا۔راقم نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر آدھ گھنٹہ تک گنتی کی۔ اس وقت پاکستان میں ڈالر غالباً 30روپے کا تھا۔ اسی طرح راقم استنبول گیا تو ایک سو ڈالر کے عوض ترکی کی کرنسی کے دس دس لاکھ کے کرنسی نوٹ جانے کتنے ملے اور اس سے کم قیمت کے کرنسی نوٹوں کا شمار بھی اب یاد نہیں رہا۔ایک اور چیز قارئین کی نظر میں رہنی چاہئے کہ ڈالر نام کی کرنسی صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ایک دو دیگر ممالک کی کرنسی کا نام بھی ڈالر ہے لیکن ہر ملک کے ڈالر کی اپنی اپنی قدرہے اسی طرح پونڈ کے نام سے رائج کرنسی صرف برطانیہ کی نہیں بلکہ قبرص اور آسٹریلیا کے علاوہ کئی دیگر ممالک کی بھی ہے بلکہ قبرص کا پونڈ برطانیہ کے پونڈ سے زائد مالیت کا ہے۔بہر حال مذکورہ بالا مختصر تفصیل اپنے سیاسی لیڈروں اور اقتصادیات کے لوگوں کی معلومات میں رہنی ضروری ہیں۔
آج بھی افغانستان کے علاوہ بھی دنیا کے بہت سے ممالک حالت ِ جنگ میںہیں لیکن اسکے باوجود بھی پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کی کرنسی کی قیمت متواتر گر رہی ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش ، افغانستان اور ایران کی معیشت اور سیاست مضبوط ہو چکی ہے۔
ماہرین اقتصادیات اورتجربہ کار سیاست دان جانتے ہیں کسی ملک میں اشیائے ضروریہ کی گرانی کی وجوہات کیا کیا ہوتی ہیں اور گرانی کو ارزانی میں بدلنے کیلئے کیا کیا اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔علاوہ ازیں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائرکا ملکی معیشت اور عالمی برادری سے تعلقات پر کیا اثر ات ہوتے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے بارے میں دو ممالک کے رویہ کے متعلق راقم کو جو تجربہ ہوا اگر پاکستان بھی اس پر عمل پیرا ہو جائے تو ہر سال ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اربوں ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کے سبب ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
سن 1988ء میں راقم ایک سرکاری وفدکے ممبر کے طور پر بھارت گیا تھا۔ائرپورٹ کی چائے کی کینٹین سے ہوٹل کی رہائش اور کھانے سمیت جہاں جہاں رقم کی ادائیگی کرنی پڑی وہ ڈالر اور پونڈ کرنسی میں کرنی پڑی۔ راقم کے پاس انڈین کرنسی بھی موجود تھی لیکن دکانداروں اور ہوٹل والوں نے اپنے ملک (بھارت) کی کرنسی لینے سے انکار کر دیا۔ جب ایک دو دکانداروں سے بحث کی تو انہوں نے کہا غیر ملکیوں کے ہاتھ اشیائے ضروریہ فروخت کرنے اور سروسز کے بدلے میں ڈالر اور پائونڈ کرنسی حاصل کرنے کیلئے سرکاری احکامات ہیں چنانچہ وہ حکومتی احکامات سے روگردانی نہیں کر سکتے صرف اور صرف ڈالر اور پائونڈ کرنسی کے بدلے میں ہی آپکو بھارت سے ہر چیز مل سکے گی۔ بالکل اسی طرح کا تجربہ راقم کو استنبول میں بھی ہوا بلکہ مذکورہ دونوں ممالک نے راقم سے ہر چیز کے عوض ڈالر اور پائونڈ کرنسی وصول کی لیکن جو زائد رقم وہ واپس کرتے وہ اپنے ہی ملک کی کرنسی میں واپس کرتے۔ باوجود راقم کے احتجاج کے انہوں نے راقم کی زائد ادا شدہ رقم ڈالر میںادا نہیں کی۔خواہ اس چیز کو بد اخلاقی کا نام دیں یا کچھ اور مگر مذکورہ دونوں ممالک اس طریقے سے اپنے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھا رہے ہیں۔
غالباً سن 2013ء کے آخری دنوں یا سن 2014ء کے شروع میں وزیر اعظم پاکستان نے اپنے وزیر خزانہ کو حکم دیا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر ایک سو روپے سے تجاوز نہ کرے چنانچہ سرکاری سطح پر آج تک مذکورہ احکامات پر عمل جاری ہے۔ مگر اُن دنوں پٹرول کی قیمت فی لیٹر ایک سو روپے سے زائد تھی جب کہ دس گرام سونے کی قیمت ساٹھ ہزار سے زائد تھی۔
الحمد اللہ عالمی مارکیٹ اور پاکستانی مارکیٹ میں بھی پٹرول اور سونے کی قیمتیں قریب قریب ایک تہائی کم ہو چکی ہیںاور آئندہ مزید دونوں اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ اب دکانداروں اور سٹاکسٹوں کے ہاں مہنگائی کے جواز میں ڈالر کی قیمت رہ گئی ہے کہ ڈالر مہنگا ہے حالانکہ ڈالر ہمیشہ پٹرول اور سونے کی قیمتوں سے منسلک رہا ہے۔ ہماری قومی زندگی کی خرابیاں رب العالمین ہی درست فرما سکتا ہے حکومت نے پٹرول اور سونے کی قیمتیں کم کر کے مہنگائی ختم کرنے کا جواز پیش کر دیا ہے مگر ناجائز منافع خور اب ڈالر کی قدر کو بہانہ بنا کر عوام الناس کو لوٹ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں وزیر اعظم پاکستان اگر ڈالر کی قدر پاکستانی پچاس روپے کے برابر مقرر کر دیتے ہیںتو انشاء اللہ اُسی روز پورے ملک کی تمام مارکیٹوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں فوراً آج کے مقابلے میں نصف ہو جائیں گی۔ اس معاملے میں حکومت ِ پاکستان کیا امریکہ کی اجازت کے بغیر اقدامات کر سکتی ہے؟ یعنی موجودہ دنوں کی نسبت ڈالر کی قدر کم کرنے سے کیا امریکہ کا کوئی ردِ عمل ہو گا یا نہیں اگر ا مریکہ کا کوئی رد عمل سامنے آتا ہے یا آسکتا ہے تو کیا پاکستانی حکومت میں اس ردِ عمل کو برداشت کرنے کی جرأت ہے؟کیونکہ…؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
مندرجہ بالاسطور میں دی گئی دونوں تجاویز کے لیے اگر تمام سیاسی رہنما حکومت کو مجبور کر دیں تو راقم کی رائے کے مطابق حکومت ِ پاکستان مذکورہ تجاویز پر عمل پیرا ہونے کیلئے تیار ہو جائیگی جس طرح مئی 1998ء میں اٹامک دھماکے نہ کرنے کیلئے امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو ایک درجن کے قریب فون کالز کیں لیکن چیف ایڈیٹر نوائے وقت اور پوری قوم کا میاں نواز شریف پر اتنا پریشر تھا کہ بالآخر انہوں نے ایک یا دو نہیں بلکہ بیک وقت 5عدد دھماکے کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔توقع ہے وزیر اعظم پاکستان زندہ ضمیر پاکستانی ہوتے ہوئے امریکہ کے پریشر میں نہیں آئیں گے۔ جناب ِ وزیر اعظم جرأت مندانہ فیصلہ کر کے ڈالر کی قدر پاکستانی پچاس روپے کے برابر کر کے پوری قوم کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلا دیں ۔ قوم آپ کے ساتھ ہو گی۔
یہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ پر ہو آشکار

مزیدخبریں