یہ پتہ نہیں کیا کھیلتا ہے،ٹک ٹک لگائے رکھتا ہے، یہ کھیل رہا ہو تو سمجھو کہ اب رنز تیز نہیں ہو سکتے،ارے یہ بوڑھا ہو گیا ہے اسکو نکالو ٹیم سے، کیا پاکستان میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا ہے جو بڑی عمر کے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کر رکھا ہے، یہ ڈرپوک ہے، بزدل کپتان ہے،جارحانہ حکمت عملی نہیں اپناتا۔یہ اور اس سے ملتے جلتے جملے ہم گزشتہ کئی برس سے مصباح الحق کے حوالے سے سنتے آ رہے ہیں۔ اتنے برسوں میں مصباح الحق کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے سابق ٹیسٹ کرکٹرز، ساتھ کھیلنے والوں اور مخصوص سوچ کے حامل ماہرین نے مصباح الحق پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا بلکہ اکثر اوقات تنقید کے مواقع پیدا بھی کیے گئے لیکن مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے آئی سی سی کی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مصباح الحق نے مشکل وقت میں پاکستان کی قیادت سنبھالی، انفرادی طور پر مسلسل عمدہ کارکردگی اور ٹیسٹ کرکٹ میں اچھے نتائج کی بدولت وہ نا صرف پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان بنے بلکہ آج وہ دنیائے کرکٹ کی نمبر ون ٹیم کے قائد کی حیثیت سے دنیا کے سامنے ہیں۔ اعجاز بٹ کے دور سے شروع ہونیوالا سفر شہریارخان کے دور میں کمال عروج کو پہنچا ہے۔گزشتہ روز ہم نے کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ سے انکی رائے لینے کے لئے فون کیا تو وہ بہت خوش تھے کہنے لگے"بڑے دن ہو گئے کتھے غائب ایں"ہم نے کہا بٹ صاحب ٹیم نمبر ون ہو گئی کیا کہتے ہیں۔ کہنے لگے بہت خوشی کی بات ہے یہ پاکستان کے لئے بڑی کامیابی ہے۔ اس سفر میں مصباح الحق کا کردار بہت اہم ہے اسے مشکل وقت میں قیادت کی ذمہ داری دی گئی تھی تاہم وہ کامیاب رہا۔ ہم نے پوچھا بٹ صاحب مصباح کو کپتان کیوں اور کیسے بنایا تھا۔ کہنے لگے" لمبی کہانی اے وقت کڈ کے آ فیر دساں گا" مصباح الحق کپتان کی حیثیت سے سب سے زیادہ تعریف اور تحسین کے مستحق ہیں لیکن ان کے اس سفر میں مختلف اوقات میں ٹیم کے ساتھ رہنے والے تمام کوچز،فزیو، ٹرینرز، ڈاکٹرز،سلیکشن کمیٹی کے ممبران کا بھی حصہ ہے۔ یہ سب ناکامی کے وقت تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تو کامیابی کے وقت انکو بھول جانا بھی نا انصافی ہو گی۔ محسن حسن خان اس وقت ہیڈ کوچ تھے جب پاکستان نے انگلینڈ کو متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔ وقار یونس کے ساتھ بھی پاکستان ٹیسٹ ٹیم نے کامیابیاں حاصل کیں۔ کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین شہریارخان تو مصباح الحق کے بڑے مداح ہیں مشکل وقت میں انہوں نے اپنے کپتان کو بھرپور سپورٹ کیا انہیں پاکستان کی قیادت کے لئے متحرک رکھا اور وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ مصباح الحق پاکستان کی قیادت کرتے رہیں۔پاکستان ٹیم کے اس اعزاز میں آف سپنر سعید اجمل کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے۔ آف سپنر نے اپنے باؤلنگ ایکشن کی خرابی سے پہلے تک پاکستان کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ یونس خان نے کئی مواقع پر تن تنہا شکست سے بچایا اور فتح پاکستان کی جھولی میں ڈالی۔ انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ میں بھی یونس خان نے مشکل وقت میں رنز کر کے ٹیم کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مدثر نذر کہتے ہیں کہ مصباح الحق خود کو عظیم اور کامیاب کپتانوں کی فہرست میں شامل کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔عبدالقادر نے وقار یونس کو بھی کریڈٹ دیا ہے۔پاکستان ٹیم کی عالمی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیم ہے جس نے مارچ دو ہزار نو کے بعد سے ابتک اپنے میدانوں پر ایک بھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔ ہمارے ملک میں 2009 سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی ہم اپنی ساری کرکٹ متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہم ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کے فائدے سے محروم ہیں، ہمیں اپنے میدانوں پر کھیلنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن پھر بھی پاکستان کرکٹ ٹیم آج ٹیسٹ کرکٹ میں دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔سوشل میڈیا پر پاکستان کی اس کامیابی کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے کہ پی سی بی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے بھی مبارکباد کا ٹویٹ کیا ہے۔ سابق اور موجودہ کرکٹرز نے بھی پاکستان ٹیم کو اس اعزاز پر مبارکباد دی ہے۔ مصباح الحق اور گزشتہ برسوں میں انکے ساتھ کھیلنے والے تمام کھلاڑی اور آفیشلز اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔کرکٹ بورڈ کے تھنک ٹینک کو اب یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ایک طرف ٹیسٹ کرکٹ میں ہم نمبر ون ہیں تو ون ڈے کرکٹ میں ہماری مسلسل گرتی ہوئی رینکنگ کو بہتر کیسے بنانا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جسطرح نمبر ون بننے میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہے اسی طرح ون ڈے میں تنزلی کا ذمہ دار بھی کوئی ایک فرد نہیں کامیابی سب کی ہے تو ناکامی کے ذمہ دار بھی سب ہیں۔بہر حال یہ خوشی کا وقت ہے،شاباش ٹیم پاکستان،شاباش مصباح الحق۔۔۔۔۔