بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی و سماجی امتزاج!

عالمی اقتصادی مربوطگی:
موجودہ مسائل کا حل یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک سرمایہ اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے یکدم مربوط ہو جائیں۔ صنعت کسی بھی ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔ ہنر مندی میں اضافہ کرتی ہے اور روزگار کے مواقع مہیا کرتی ہے۔ نتیجتاً سرمائے کی قلت اور تجارت میں عدم توازن اور افراط زر جیسے عوامل میں کمی آتی ہے۔ صنعت کیلئے سرمائے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عوامل آسانی سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ مثلاً سرمایہ حاصل کرنے کیلئے سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی بھی قلت ہے۔ مقامی طور پر ٹیکنالوجی کو فروغ دینا مشکل ہے کیونکہ رائلٹی اور ٹیکنیکل ماہرین کے اخراجات ہی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر پراپرٹی رائٹس جیسے نئے حقوق کی ارتقاء سے بھی لاگت بڑھتی ہے۔ صنعت کاری کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اشیاء پیدا کی جائیں جن کی کھپت ہو۔ چونکہ ہائی ٹیک صنعتیں اگر ہر خطے میں قائم نہیں کی جا سکتیں تو اس لئے یہ ضروری ہے کہ ملک کی مقامی پیداوار اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ یعنی جو چیز مقامی طور پر بن سکتی ہو وہ باہر سے نہ منگوائی جائے۔ اس طرح ہرملک کے اپنے وسائل صحیح طور پر استعمال ہو سکیں گے اور ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق ختم ہوتا جائیگا۔
کچھ عرصہ پہلے تک ممالک ایک دوسرے کی امداد کرتے رہے ہیں لیکن بہرحال اب یہ رجحان ختم ہو گیا ہے۔ مالی امداد لینے والے ممالک امداد کی بجائے تجارت کی بات کرتے ہیں اور کڑی شرائط لگاتے ہیں۔ ہر ملک اپنی سیاسی، معاشی و سماجی آزادی کا خواہش مند ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت مضبوط ہے کیونکہ وہاں تحفظ ہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک میں ڈیوٹی کی شرح میں تبدیلی سے خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری طرف یہی ممالک اپنی اشیاء دوسرے ممالک میں اسمگل کرتے ہیں۔ سمگلنگ ایک بہت بڑی برائی ہے اور اسے ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسمگلنگ ایک ایسی لعنت ہے جو کسی بھی ملک کی معیشت اور اس باشندوں کیلئے زہر قاتل کا کام کرتی ہے۔ اسمگلنگ کی موجودگی میں انسانی حقوق، پینے کا صاف پانی، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، اچھی صحت و تعلیم اور خواتین کے حقوق جیسے دعوے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ پھر ترقی پذیر ممالک کیلئے کوٹے مقرر ہیں۔ آزاد تجارت کا نعرہ کھوکھلا نعرہ ہے۔ ان سب عوامل کے پیش نظر آج کل امریکہ کے شہر سٹیل میں جب W.T.O کی سالانہ میٹنگ ہو رہی ہے تو ہر زخم خوردہ وہاں احتجاج کر رہا ہے۔ اس احتجاج میں دونوں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے چھوٹے چھوٹے صنعتکار، تاجر، مزدور اور دہقان شامل ہیں۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری:
مزید براں ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کی شدید کمی ہے سرمایہ اور افرادی قوت دونوں کو یکجا کر کے معیشت کیلئے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ افرادی قوت کی قابلیت اور اہلیت میں اضافہ اور اسکے ساتھ ساتھ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ علم کے بغیر کسی بھی شعبے میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ سماجی ترقی اور انسانی توقعات ملک کے اپنے نظام کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں جبکہ غیر ملکی ان تقاضوں سے واقف نہیں ہوتے۔ دنیا میں کرپشن اور بددیانتی بڑھتی جا رہی ہے اور اب تعلیم دانوں نے بھی اخلاقیات کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ امریکہ کی (Yale university) ییل نے ’’اخلاقیات، سیاسیات اور اقتصادیات‘‘ کا مضمون اپنے نصاب میں شامل کیا ہے۔ ہاورڈ بزنس سکول نے بھی اخلاقیات پر ایک مکمل مضمون اپنے نصاب میں شامل کیا ہے۔ اخلاقیات کی ذمہ داری عوام اور حکومت دونوں پر آتی ہے۔ چند بڑے بڑے ممالک نے بیرونی ممالک میں رشوت کو قانونی حیثیت دی ہوئی ہے۔ ان میں امریکہ، جرمنی اور فرانس شامل ہیں۔ یہاں پر بھی صاف شفاف حکمرانی اور رشوت کیخلاف جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ تعلیم یافتہ سرکاری افسروں کی ضرورت ہے جنہیں معقول تنخواہ دی جائے۔ اس طرح سے ہی برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔گزشتوں دنوں ترقی پذیر ممالک میں جو مالیاتی بحران آیا تھا اس کی بڑی وجہ کرنسی کا تبادلہ تھا یعنی، سرمایہ راتوں رات منتقل ہو گیا۔ یہ رجحان اب بھی جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی برقرار رہے تاکہ وہ مستقل اور طویل المیعاد سرمایہ کاری کرتے رہیں۔ سرمایہ کاری کیلئے معیشت کی خوبیوں اور خامیوں کے گہرے مطالعہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری لمبی مدت کے اثاثہ جات میں ہونی چاہیے جو کہ ایک معیشت کیلئے بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید بنک آف ٹوکیو، مٹسوبشی بنک سمیت، بہت سے مالیاتی اداروں کا انضمام نہ ہوتا۔ جنوب مشرق میں مالی بحران نہ آتا۔
عالمی مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ سرمایہ کاری کی منتقلی کو روکیں، کیونکہ اس سے ترقی پذیر ممالک کی پیش رفت میں دشواری ہوتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مختصر مدت کا سرمایہ دنیا میں کسی بھی ملک کو پھلنے پھولنے نہیں دے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے کر لیا جائے کہ کسی ملک میں سرمایہ کم سے کم کتنی مدت کیلئے لگایا جا رہا ہے۔ اسکے مقاصد شروع سے ہی واضح ہونے چاہئیں تاکہ مالیاتی ماہرین اپنی مرضی سے سرمائے کو ادھر ادھر نہ کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ترقی پذیر ممالک مسلسل تنزلی کا شکار رہیں گے اور دنیا بھر میں معیشت میں ربط ممکن نہیں ہو گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں ترقی پذیر ممالک سے افرادی قوت کے انخلاء کا مسئلہ بھی گھمبیر ہے۔ یہ عمل صرف اس لئے ہے کہ موخرالذکر ممالک میں ملازمتوں کے مواقع کم اور اول الالذکر ممالک میں زیادہ ہیں جس کی اہم وجہ وہاں صنعت کاری ہے۔ جب تک ترقی پذیر ممالک میں صنعت کاری نہیں ہو گی، یہ عمل جاری رہے گا۔ نیو یارک ٹائمز میں حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ پاکستان کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ وہاں کی انفرادی قوت ہے۔ بھلا کیوں؟ اگر پاکستان میں صنعت کاری ہو اور وہاں ملازمت کے مواقع ہوں تو یہاں سے افرادی انخلاء کیوں ہو! پھر ان افراد پر ان غریب ممالک میں تعلیم وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے۔ وقت ضیاع ہوتا ہے۔ یعنی ان پر خرچ غریب ممالک کریں اور اس سے استفادہ امیر ممالک کریں۔ بہرحال اس عمل کے جاری رہنے سے کوئی بھی ملک سیاسی، معاشی اور سماجی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس امر کا سدباب نہایت ضروری ہے۔
اختتام: مشرق ہو یا مغرب، امریکہ ہو یا روس، یورپ ہو یا ایشیاء یالاطینی امریکہ، ان سب کو باہمی ترقی کیلئے راستے نکالنے ہونگے۔ جب تک ان براعظموں کی معیشت میں منجملہ باہمی ربط نہیں ہو گا اور ان کے مفاد مشترکہ نہیں ہوں گے اس وقت تک دنیا بھر سے امن اور خوشحالی حاصل نہیں ہو گی۔ بقول بلھے شاہ …؎
پیرا پیری دور ہے اُچی لمبی کجھور ہے
چڑھ جاویں تے بیڑا پار ڈگ پویں تے چکنا چور ہے
………………… (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن