اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) خارجہ پالیسی و سلامتی کے قومی حلقوں کی رائے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیاءو افغانستان کی نئی پالیسی دنیا بھر میں کڑی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے اور اسے بھارتاور نیٹو کے سوا کہیں سے اعلانیہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس کے برعکس، چین اور روس،پاکستان کے اس مﺅقف سے کلی اتفاق کر رہے ہیں کہ امریکہ طاقت کا استعمال کر کے افغان مسلہ نہیں حل کر سکے گا جو پاکستان کیلئے اہم سفارتی کامیابی ہے ۔ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان کی یہ حمائت ، افغان مسلہ کے حل کے حوالہ سے علاقائی اور عالمی اداروں میں نہائت معاون ثابت ہو گی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی سے آگاہ ایک ذریعہ کے مطابق افغان مسلہ کے سیاسی حل کے بارے میں پاکستان کے اس مﺅقف کی پذیرائی کو بنیاد بناتے ہوئے اس حوالہ سے علاقائی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کا امریکہ پر دباﺅ پڑ سکتا ہے۔ اسلام آباد، بیجنگ، تہران، ماسکو اور تمام وسط ایشیائی دارلحکومتوں میں یہ تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی ہی فساد کی جڑ ہے۔ امریکہ کی ناکام حکمت عملی کی وجہ سے افغان بدستور بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے تو دوسری طرف داعش جیسا عفریت افغانستان کے ذریعہ پورے خطہ کیلئے خطرہ بن رہا ہے ۔ پاکستان، چین، ایران اور روس سمیت وسط ایشیائی ریاستیں اس خطرہ سے سہمی ہوئی ہیں لیکن داعش سے امریکہ اور اس کے حلیف بھارت کو براہ راست قطعاً کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ مذکورہ بالا علاقائی اتفاق رائے تشکیل دینے کیلئے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بیجنگ، ماسکو اور تہران کے دورے کریں گے جب کہ اس کے ساتھ ہی امریکہ کو بھی رابطہ میں رکھا جائے گا تاکہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان بدگمانیوں کا دائرہ وسیع نہ ہو۔ اس رابطہ کاری کیلئے خواجہ آصف کا ماہ ستمبر میں دورہ امریکہ متوقع ہے لیکن بلواسطہ روابط کیلئے سعودی عرب ، دونوں ملکوں کی معاونت کرے گا۔ اس بارے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے تفصیلی مشاورت ہو چکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ اور دیگر حکام کے اس حوالہ سے بیانات اور دھمکیاں بھی زیر غور آئیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں ، امریکہ کی طرف سے اس نوعیت کے مزید دباﺅ کا سامنا کرنے پڑے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کیلئے امریکہ کی اس کھلی عداوت کے موقع پر چین ،پاکستان کی حمائت میں نکل پڑا ہے اور چینی قیادت ہر سطح پر ٹرمپ انتظامیہ کو ،پاکستان کے حوالہ سے اس کی غلطیوں کا احساس دلا رہی ہے اور پاکستان کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے احترام پر زور دے رہی ہے۔ چین کا یہ اصرار ثابت کرتا ہے اسے بھی پاکستان کی مغربی فضائی اور زمینی سرحدوں کو لاحق خطرات کی نوعیت کا علم ہے۔