”کیا کوئی انسان دنیا میں نہیں رہا“

"سکندر اعظم" فتح کے بعد جب یونان گیا تو وہاں ایک آدمی کو دنیا سے بے خبر سوتا ہوا پایا۔ "سکندر" نے لات مار کر جگایا اور کہا۔ تم بے خبر سو رہے ہو جبکہ میں نے اس شہر کو فتح کر لیا ہے۔ اُس شخص نے "سکندر" کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔ "شہر فتح کرنا انسان کا کام ہے اور لات مارنا گدھے کا"۔ کیا کوئی انسان دنیا میں نہیں رہا جو بادشاہت "گدھے" کو مل گئی؟
پوری دنیا ایک شدید قسم کی آپا دھاپی۔ افراتفری۔ نفرت کے حصار میں مقید نظر آتی ہے۔ جنگ چھوٹی یا بڑی اب اثرات سرحدوں سے باہر نکل کر۔ ہمسایوں کو بھی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔"عالم اندر میانہءجُہّال"۔ معلوم ہوتا ہے ایک عالم جاہلوں کے درمیان پھنس گیا ہے۔ عراق سے افغانستان۔ شام سے ڈوکلام چائنا تک کو تپش گھیرے ہوئے ہے۔ انسان کو عقل و دانش کا پیکر اور ارضی خلیفہ بنایاگیا پھر کیوں انارکی۔ انتشار پھیل رہا ہے۔ لگتا ہے دنیا میں اب کوئی اہل انسان نہیں رہا جو قیادت۔ سیادت خبطی۔ جھگڑا لو لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہوئی۔
دھمکی نئی ہے نہ پہلی مرتبہ ملی۔ پُرانی دھمکیوں کا تسلسل اور دیرینہ پلاننگ کا درمیانی حصہ اختتامی باب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہماری قربانیوں کے اعتراف کی بجائے" دشمن کی بولی" بول رہے تھے۔ ابتدائیہ سے اختتام تک۔ رٹا یا ہوا سبق۔" اربوں ڈالرز" دینے کا گِھسا پٹا طعنہ اب متروک۔ زائد المعیاد ہو چکا ہے۔ کھربوں ڈالرز کا ذاتی نقصان۔ ہزاروں بے گناہ۔ معصوم انسانوں کی شہادتیں الگ سے۔ سچ جانیے۔ ایک انسانی جان کے بدلہ میں" پورا امریکہ" ناکافی ہے۔تازہ نوٹس چہ معنی دارد۔ ایک طویل عرصہ پاکستان بغیر نوٹس حملوں کی زد میں رہا۔ ڈھیروں نہیں ہزاروں نقصانات کے کھاتے بھرے پڑے ہیں۔ اِس کے باوجود شکوے ؟ لمحہ موجود کا پاکستان ایک محفوظ۔ پُرامن ملک ہے۔ ماضی کے دلخراش حالات بھی" دشمن قوتوں" کے پیدا کردہ تھے۔ "سرپرستوں" کے سائے میں" سہولت کاروں" نے خوب جم کر گھناو¾نا۔ گندہ کھیل کھیلا۔ ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ پاکستان ڈسا گیا۔ افغانستان کا ساتھ دینے پر۔ جبکہ مومن ایک سوراخ سے دوسری مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ یہاں تو انسانیت گم ہے۔" مومن "تو ہزاروں میل لمبی مسافت کا معاملہ ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ واقعی "آپ" کا نہیں مگر ہمار ا صبر لامحدود ہے۔ برداشت کی بھی کوئی حد نہیں چھوڑی۔ تبھی یہ "روزِ سیاہ "دیکھنا پڑا۔
ایک منٹ نہیں لگایا۔ دنیا کی عظیم طاقت "چین۔ روس" نے امریکی الزام کو یکسر مسترد کر تے ہوئے عالمی برادری کو قیام ِ امن کے سلسلہ میں پاکستانی کوششوں سے باور کرواتے ہوئے ہمارے اہم کردار کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا۔" روس" کا بیان لائق توجہ ہے کہ "امریکی پالیسی" سے کچھ نہیں بدلے گا۔ لگتا ہے یہ" بوڑھے شیر" کی آخری دھاڑ ہے۔ "کوریا سے مڈل ایسٹ"۔ دہائی سے زیادہ افغانستان (خود شروع کردہ ہر جنگ میں ناکامی کا کڑوا ذائقہ چکھنے کے باوجود سرد پڑتے محاذ میں تازہ کوئلے ڈالنے کا مقصد©) کونسی فلم ہے جو بُری طرح پٹ نہ چکی ہو۔ جہاں بیرونی ناکامیوں کی ایک لمبی فہرست ہے وہاں امریکی اندرونی صورتحال بہت خوش کُن نہیں۔ عسکری طاقت ریت کے ڈھیر میں بدلتے منٹ نہیں لگتا اگر معاشی ستون کمزور پڑنا شروع ہو جائیں۔ اقتصادی مشکلات کے بلند ہوتے پہاڑ۔ بے روز گاری کے بڑھتے طوفان۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل تشنہ خواب۔ کیا اتنی اہلیت۔ وسائل ہیں کہ" اِک نئے قبرستان" کی آبادکاری کا پلان دے دیا۔ بیحد مضبوط۔ با عمل پیغام۔ "چیئرمین سینٹ "کا ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں پاکستان امریکی فوج کا قبرستان بنے تو خوش آمدید۔
"آپ محفوظ "انخلاءکے متمنی ہیں تو مذاکرات کی میز پر آئیں (جو کہ آئیںگے)۔ایک پُرامن افغانستان۔ ہمارے استحکام کیلئے سب سے زیادہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ٹھیک فرمایا "آرمی چیف "نے" امداد نہیں۔ اعتماد چاہیے"۔ امریکہ ہمارا پُرانا اتحادی ہے۔ ہماری مشکلات سے آگاہ۔" صدر ٹرمپ" کو چاہیے کہ وہ ہماری دشواریوں کو سمجھتے ہوئے تمام فریقین کو ایک "میز" پر بٹھائیں۔ دھمکیاں۔ دباو¾ کسی بھی مشکل کا حل نہیں ہوتیں۔ "دیرینہ اتحادی" کو ہمارے "معلوم دشمن "کی مکروہ چالوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ "اُس" کو خطہ میں مزید کردار دینے سے مزید شعلے بھڑکیں گے۔ سرد نہیں ہونگے۔
"ہم متحد رہے تو ملک کو خطرہ نہیں"۔ دھمکی سے ایک دن پہلے فوجی ترجمان کا بیان۔ سیاست سے علماءکرام تک دباو¾ مسترد کرنے کا مطالبہ۔ بالفرض ہم دباو¾ قبول نہ کرنے کے "بیاناتی آپشن" کو اپنا لیتے ہیں تو ہماری مستقل مزاجی۔ سٹینڈ کرنے کی تیاری کِتنی ہے ؟ کیا ہم اُسی طرح متحد۔ یکجان ہیں جس طرح "63-62"کے معاملہ میں متفق" اشرافیہ" کے ضمن میں دیکھا جارہا ہے۔ عوام کے معاملہ میں کوئی شبہ نہیں۔ بیحد ذہین۔ معاملہ فہم قوم ہے پر بدقسمتی سے" لیڈر" صحیح نہیں ملا۔ ملے تو بہت مگر "نیک نیت" نہیں تھے۔ بے شک سیاسی طور پر پاکستان کتنا ہی انتشار کا شکار کیوں نہ ہو مگر "دشمن" (چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں) کے باب میں ہم سب" ایک صفحہ" پر کھڑے ہیں اِس ملک میں تمام طبقات کی سانجھ داری ہے۔ زمین ہے۔ گھر بار ہیں۔ روٹی روزی ہے۔ اولاد۔ ماں۔ باپ رہتے ہیں۔ کوئی کِتنا ہی "پیسہ۔ مال "باہر لے جائے۔ چاہے کِسی بیرونی ملک کا آدھا حصہ خرید لے۔ تب بھی اِس وطن کے کِسی نہ کِسی ذرے پر اُس کا کوئی نہ کوئی "پیارا رشتہ" سکونت پذیر ہے۔ کہیں تعلق داری ہے۔ کہیں جذباتی۔ روحانی۔ فکری وابستگی ہے۔ جو یہاں" پیدا "ہوا۔ چاہے ایک سال کی عمر میں باہر مقیم ہو گیا۔ اُس کا تعلق بھی اُتنا ہی اٹوٹ ہے۔ جتنا 70" سال گزارنے والے پاکستانی" کا ہے۔ اسلئیے ہمارا فرض ہے کہ جذباتی بیانات کے جوش میں نہ جھومتے رہیں۔ شواہد سنگینی حالات کے ہیں۔ دھمکی کو آسان نہ لیں۔ تمام تر تصویری کہانی ہمارے سامنے شوٹ ہوتی رہی۔ ہم نے اغماض برتا۔" قصداً "نظر انداز کیا۔ وطن کا دفاع ایک ادارے کا کام نہیں۔ ہم جمہوری حکومت میں رہ رہے ہیں۔ نرم دلانہ۔ نیم مردہ اقدامات پیش آمدہ بحران کو نہیں ڈال سکیں گے۔ اداروں کے احترام۔ وقار کو ملحوظ رکھنے کی متفقہ پالیسی بنائیں۔دھمکی اُنکی طاقت کا سمبل نہیں ہماری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے دی گئی۔ ہم زیادہ طاقتور ہیں۔ طاقت صرف "سامانِ حرب" سے نہیںبنتی۔ "ایمان کی قوت"۔" ایٹم بم "سے بڑا ہتھیار ہے۔ اِسی کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کریں۔ ظاہر و معلوم ہمسائے دشمنوں کی چالیں۔ عزائم آشکار ہیں۔ اُن کا ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سوائے متحد۔ یکجان ہونے کے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...