پاکستان اور پاکستانیوں کی صلاحیتوں کی اک دنیا دیوانی ہے یہ ہی ہمارا ملک ہے جہاں سے ایدھی ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان،ڈاکٹر عبدالسلام اور ان جیسے کئی جلیل القدر شخصیات پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے اس مملکت کی ترقی او رخوشحالی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پاکستان کا نام سربلند کیا ہے لیکن ہمارا ایک اجتماعی مسئلہ ہے کہ ہم کبھی بھی کسی اچھی تبدیلی کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس لحاظ سے اگر کبھی کسی پاکستانی کا نام سامنے آئے تو ایک عجیب سی مہم شروع کردی جاتی ہے کہ شاید پاکستانی کوئی اچھا کام نہیں کرسکتے ۔
پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اللہ پاک نے اس ملک کو تیل کی وہ دولت تو نہیں دی جس کی وجہ سے عربی شیوخ انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے لیکن اللہ پاک نے پاکستان کو ایسے ایسے وسائل سے نوازا ہے جن کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی سب سے بڑھ کر ہم پاکستانی ہیومن ریسورس کے معاملے میں خود کفیل ہیں۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پیدا ہونے اور پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر جانے والے لوگ جو کہ اپنی اداروں کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں وہ اکثر یہاں کی کرپشن اوربیوروکریسی کے رویے کی وجہ سے تنگ آکر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک تو پاکستان ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ شخصیات سے محروم ہوجاتا ہے جبکہ یہی شخصیات جب یہاں سے باہر جاکر کام کرتیں ہیں تو وہ ممالک انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر کبھی کوئی ایسا پاکستانی جس نے پوری دنیا میں اپنی محنت ، ایمانداری اور کام کا لوہا منوایا ہووہ پاکستان واپس آکر اپنے وطن کے لیے کوئی کام کرنا چاہے تو اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور کردار کشی کی ایک مہم شروع کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی پاکستانی اپنے وطن کے لیے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی اس حوالے سے سوچنے کا بھی جرم نہیں کرپاتا۔حال ہی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کے لیے ایک ایسی ہی شخصیت کا نام سامنے آیا ہے جس نے پوری دنیا خصوصاًورلڈ بینک، اقوام متحدہ، امریکہ، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک او راس جیسے کئی بین الاقوامی اداروں میں نا صرف اپنے ملک کی نمائندگی کی بلکہ ایک ایسا نام کمایا ہے جو کہ بہت کم پاکستانیوں کو نصیب ہوتا ہے ۔جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے ان اداروں کے تحت کام کرتے ہوئے بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک کے سیاسی اور حکومتی حالات کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے منصوبوں پر کام کیا ہے ۔جونہی بین الاقوامی طور پر مانے جانے والے نام مشرف رسول جنہوں نے بارہ سال امریکہ رہنے کے باوجود بھی پاکستان کی شہریت کو امریکی شہریت پر ترجیح دی ،نے وزیراعظم پاکستان کی طرف سے کی پیش کش کہ پی آئی اے کو ریسکیو کرنا ہے کی ذمہ داری لینے کے چیلنج قبول کیا تو پی آئی اے کے اندر موجود قبضہ گروپوں نے ان کے خلاف ایک لغو پراپیگنڈہ مہم کا آغاز کردیا جس کی وجہ سے ان کی بدنامی توکیا ہونی الٹا ان پاکستانیوں کے لیے یہ پیغام جارہا ہے جو کہ دیار غیر میں کام کررہے ہیں کہ وہ کبھی بھی پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہ کریں ،ایسے موقع پر ہم پاکستانیوں پر فرض ہے کہ آگے آئیں اور ایسے ہیروز کا حوصلہ بلند کریں۔پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کے نئے سربراہ مشرف رسول کا تعلق زندہ دلان کے شہر لاہور سے ہے او رانہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لارنس کالج گھوڑا گلی سے حاصل کی جبکہ اس کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور اس کے علاوہ پاکستان کی اعلیٰ سول سروس میں شمولیت کے لیے مقابلے کا امتحان دیا جس میں انہوں نے پورے ملک میں ٹاپ کیا ۔نپولین بونا پارٹ کا قول ہے کہ "اگر انسان اپنی ضرورتوں کی بجائے صلاحیتوں کے لیے کام کرے تو دنیا بدل دیتا ہے©"شاید یہی وجہ تھی کہ ایک کامیاب بیوروکریٹ جو کہ اپنے زمانے میں سب سے کم عمر اسسٹنٹ کمشنر تھا انہوں نے اپنی ان کامیابیوں پر اکتفا کرنے کی بجائے نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور لندن سے میڈیسن کی فیلڈ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی اور دنیا میں پاکستان کانام روشن کیا۔مشرف رسول ماضی میں کے پی کے کی حکومت میں سب سے کمر عمرچیف اکنامسٹ رہ چکے ہیں۔انہیں دنیا کے بہت سے ممالک میں پبلک ہیلتھ اور ریسرچ کے ساتھ ساتھ فنانشل مینجمنٹ میں کام کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔اس قدر صلاحیتوں کے باوجو د اگر ایک شخص اپنے وطن کے لیے بیرون ملک سے اعلیٰ نوکری چھوڑ کرکام کرنے کا چیلنج قبول کرتا ہے تو ایسے لوگ ہمارے نوجوانوں کے لیے نہ صرف مشعل راہ ہیں بلکہ وہ ہمارے وطن کا مستقبل بھی ہیں ۔مشرف رسول کے لیے اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر کا عہدہ ایک ایسا چیلنج ہے جس سے عہدہ براءہونے کے لیے انہیں کسی پی ایچ ڈی یا کسی سیاسی و فوجی بیک گراو¿نڈ کی ضرورت نہیں ہے بس انہیں اپنے وطن کے لیے ہر قربانی دینے کی تیاری کرلینی چاہیے اور ایسی آوازوں کے لیے کان بند رکھنے چاہیے جوکہ انہیں منفی پراپیگنڈہ کرکے گمراہ کرنے اور ڈی موٹیویٹ کرنے کی کوشش کریں گے اور ایسی آوازوں پر کان دھرنے کی بجائے انہیں چاہیے کہ وہ ان تمام سیاسی پریشر گروپس اور پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن پر بوجھ بنے ہوئے ان قبضہ گروپوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں جو کہ اس ادارے کو کئی دہائیوں سے طفیلیوںکی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔