ٹرمپ کی دھمکیاں: تمام ارکان پارلیمنٹ امریکی سفارتخانے کے سامنے دھرنا دیں‘ سفیر کو طلب کیا جائے: سینٹ میں تجاویز

اسلام آباد (نامہ نگار+ایجنسیاں) سینٹ میں جمعرات کو پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ نوعیت اور امریکی صدر کی پاکستان کو دھمکیاں دینے پر تمام اراکین پارلیمنٹ کے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے دھرنا دینے کی تجویز دے دی گئی، امریکی سفیرکی طلبی کا بھی ایک بار پھر مطالبہ کر دیا گیا اور یہ مطالبہ پارلیمنٹ میں شدت اختیار کرگیا ہے، گزشتہ روز بحث میں حصہ لیتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہا کہ فساد اور خون بہہ رہا ہے، ہر آمر ہر جابر اور ہر ظالم شہنشاہ فساد پھیلاتا ہے، امریکہ افغانستان سمیت تمام شورش زدہ ممالک میں ناکام ہوا، آج کا سب سے بڑا دہشت گرد واشنگٹن کے وائٹ ہائوس میں بیٹھا ہے، ایجنڈا امن نہیں جنگ ہے، جس میں امریکہ کامیاب رہا، امن کے نام پر جہاں گیا فساد ہی فساد ہے، پاکستان کو دھمکیاں نہیں دے رہا ہے بلکہ ان کا ایجنڈا ہی جنگ ہے، خارجہ پالیسی دو وزیر اور2 جرنیل بناتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نظرثانی کرے، خارجہ پالیسی کا جائزہ جنرل (ر) پرویز مشرف سے شروع کیا جائے، پارلیمنٹ قرارداد منظور کرے کہ پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر کسی خارجہ پالیسی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ حامد حمد اللہ نے کہا کہ وزیر دفاع نے اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے اور شراکت داری کا بیان دیا ہے، یعنی تعاون جاری رہے گا، جنرل باجوہ نے بیان دیا کہ مال کے بغیر کام جاری رکھیں گے امداد نہیں چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث بخش نیازی نے کہا کہ امریکہ کا دوہرا معیار ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی امریکہ کے صدر نے بات کیوں نہیں کی، ہم درست سمت میں ہیں، واویلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے امریکہ کا دورہ نہ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں، امریکہ کے سفیر کو بلا کر جواب طلبی کی جائے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے تمام ارکان پارلیمنٹ امریکی سفارت خانے جا کر احتجاج ریکارڈ کروائیں کہ ہر صورت ہر قیمت پر پاکستان کے دفاع و سلامتی کا تحفظ کیا جائے گا، تمام سیاسی جماعتیں ملک کی خاطر اکٹھی ہو جائیں، سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے، کبھی ہم مودی کبھی ٹرمپ کے بیانات پر پارلیمنٹ میں بحث کر رہے ہوتے ہیں،70سالوں سے دفاعی پوزیشن میں ہیں دوسروں کی شادی میں بیگانے کی حیثیت اختیار کئے رکھی اور کشکول اٹھانے کی وجہ سے ان حالات کا سامنا ہے، سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کی وجہ سے تباہی و بربادی دیکھنا پڑی، سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سب سے زیادہ کنفیوژن وائٹ ہائوس اور امریکی اداروں میں پائی جاتی ہے۔ محسن لغاری نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو دیکھنا ہو گا۔ سینیٹر سراج الحق نے کا کہ امریکہ کی دھمکی نہیں ہے، صلیبی جنگ کی بھی دھمکی دی گئی تھی، یہود و نصاری غلام اور تابع بنانا چاہتے ہیں، اس کے بغیر خوش نہیں ہوں گے، رحمن ملک نے کہا کہ القاعدہ اور داعش کس نے کھڑی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننا غلط پالیسی تھی۔ سینیٹرنسیمہ احسان نے کہا کہ پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سیف اللہ مگسی نے پارلیمنٹ کے ذریعے آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی وضع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جمعرات کو سینٹ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں قومی سلامتی کے معاملے پر جلد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ کی متفقہ سفارشات کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس امر کا اظہار انہوں نے سینیٹ میں امریکی صدر کی نئی پالیسی کے اعلان سے پیدا شدہ صورتحال پر سینیٹ میں بحث مکمل ہونے کے موقع پر کیا۔ چیئرمین سینٹ کی توجہ دلانے پر وزیراعظم نے کہا کہ اس معاملے پر سینٹ اجلاس کی پی ٹی وی سے کوریج ہونی چاہیے تھی، واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ دونوں ہائوسز کے اجلاس کو پی ٹی وی سے کور کیا جائے، براہ راست کارروائی کو دکھایا جائے، اہم حساس معاملے پر سینٹ اجلاس کی پی ٹی وی سے کوریج نہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں پوچھا جائے گا، وزیراعظم نے کہا کہ سینٹ کی سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔ وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر کے بیان کو یکسر مستردکر دیا ہے ، پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے افغانستان میں قیام امن میں مدد نہیں ملے گی،پاکستان کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ،بھارت کو جنوبی ایشیاء کی سیکورٹی کی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء اور افغانستان پر نئی پالیسی اور پاکستان کے بارے میں حالیہ بیان پر سینیٹ میں بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کو بھی میں پالیسی بیان کے طور پر ایوان بالا میں پیش کیا۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی اور پر امن افغانستان کے لیے تمام عالمی کوششوں کی حمایت کی جب کہ آئندہ بھی افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے عالمی کوششوں کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا ہے جب کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر افغانستان کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی، ہم افغانستان کے ساتھ پرامن تعلقات کے خواہاں ہیں، پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف تشدد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا اور دوسرے ممالک سے بھی ایسا ہی تعاون چاہتا ہے لیکن پاکستان کو مشرق اور مغربی سرحد سے غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں جس کے لئے افغانستان میں پاکستان مخالف محفوظ پناہ گاہیں بنیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ لاکھوں پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جنگ میں 120ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، امریکا اور افغانستان کو بھی ہمارے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری مالی معاونت کے بجائے قربانیوں اور کوششوں کو تسلیم کیا جائے۔ علاوہ ازیں سینٹ کا ریکوڈیک کے معاملے پر ان کیمرا اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بریفنگ میں بتایا ریکوڈیک سے متعلق کمپنی کو ادائیگی کرنی پڑیگی۔ عدالتی فیصلے کے باعث ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ عالمی عدالت انصاف میں ایک جج پاکستان سے متعلق تعصب رکھتا ہے۔ مزید برآں وزارت داخلہ نے سینٹ میں تحریری جواب میں بتایا ہے کہ 134 ممالک سے 5 لاکھ 44 ہزار 105 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ پاکستانیوں کو گذشتہ 5 سال کے دوران ڈی پورٹ کیا گیا سب سے زیادہ سعودی عرب سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا جن کی تعداد دو لاکھ 15 ہزار ہے۔

ای پیپر دی نیشن