امن اور خوشحالی کا راستہ دو طرفہ مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے

وزیراعظم عمران خان کا بھارت پر مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنے پر زور
وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل کی جانب پیش قدمی کیلئے بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کرنا ہوں گے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کا حل نکالنا ہوگا، وزیراعظم نے اس سلسلہ میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کئے گئے اپنے پیغام میں کہا کہ برصغیر میں غربت کے خاتمہ کا بہتر طریقہ بات چیت اور تجارت ہے۔ امن کے بغیر دونوں ملک خوشحال نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے سابق بھارتی کرکٹرنوجوت سنگھ سدھو کو پاکستان آنے پر بھارتیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنانے کے اقدام پر کہا کہ وہ ان کی حلف برداری میں شرکت کیلئے پاکستان آنے پر سدھو کے مشکور ہیں۔ وہ امن کا سفیر بن کر پاکستان آیا جسے پاکستانی عوام نے بے پناہ محبت اور پیار دیا۔ انہوں نے کہا بھارت میں جو لوگ سدھو کیخلاف تلواریں سونتے ہوئے ہیں وہ حقیقت میں برصغیر کے امن پر حملہ آور ہیں جس کے بغیر ہمارے لوگوں کی ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن کے بغیر لوگ فی الواقع ترقی نہیں کر سکتے۔ مستقبل کی جانب پیش قدمی کیلئے بھارت، کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کرے اور باہمی تجارت شروع کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان عالمی برادری کے ساتھ ہے۔ عالمی برادری دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کیلئے اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کیلئے دنیا میں پہلی بار منائے جانے والے دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ آج قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کوسراہنے کا دن ہے جنہوں نے عوام کے تحفظ کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے کابل میں صدارتی محل کے قریب عید الاضحیٰ کے اجتماع کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے راکٹ حملے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیرہی اصل تنازعہ ہے جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی 71سال قبل خود بھارت نے کھڑا کیا تھا جس نے تقسیم ہند کے وضع کردہ فارمولے سے انحراف کرتے ہوئے مسلم اکثریتی آبادی والی خود مختار ریاست کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور پھر اس ریاست میں اپنی افواج داخل کرکے اس کے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا۔ پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے طور پر دل سے تسلیم نہ کرنے والے بھارتی ہندو لیڈران نے صرف اس پر ہی اکتفاءنہ کیا بلکہ بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو کشمیر پر اپنے ہی پیدا کئے گئے تنازعہ کے تصفیہ کیلئے درخواست لے کر اقوام متحدہ جا پہنچے تاہم جب یو این جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد کے ذریعے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کرکے بھارت کو کشمیر میں رائے شماری کے اہتمام کا کہا تو جواہر لال نہرو اقوام متحدہ کی اس قرارداد سے منحرف ہو گئے اور پھر بھارت کے آئین میںترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا گیا اور اسے بھارتی اٹوٹ انگ قرار دے کر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا دی گئی۔
یہ بھی امر واقع ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ کشمیر کا تنازعہ کھڑا نہ کیا ہوتا اور اس نے برطانوی سامراج سے ہندوستان کی آزادی کی طرح تشکیل پاکستان کو بھی ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا ہوتا تو پاکستان اور بھارت کے مابین کبھی کوئی تنازعہ ہی پیدا نہ ہوتا اور پڑوسی ہونے کے ناطے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ خیر سگالی کے دوستانہ مراسم استوار کرکے اور ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرکے باہمی تجارت و تعاون کو فروغ دیتے تو یہ خطہ امن و خوشحالی کا گہوارہ بن جاتا اور آج ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑے ہوتے۔ اس خطہ کے عوام کو اقتصادی ناہمواریوں سے دوچار ہونا پڑتانہ ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ہاتھوں اپنی سلامتی کیلئے کسی قسم کے خطرات لاحق ہوتے۔ اس طرح ایک دوسرے کے دفاعی میزانیوں میں مختص کھرب ہا روپے پر دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کی خوشحالی، ان کیلئے فلاحی منصوبوں، ان کی تعلیم، صحت اور دوسری بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور اپنی اپنی معیشت و صنعت کی ترقی کیلئے بروئے کار لا رہے ہوتے مگر بھارت کے مسلمان دشمن ہندو انتہا پسند لیڈران نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین ایسی مثالی ساز گار فضا استوارہی نہ ہونے دی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے 1948ءسے 1955ءتک منظور کی گئی اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے بھارت کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کا راستہ دکھایا مگر بھارت نے اس کے برعکس کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو ہی فروغ دینا شروع کر دیا۔ بھارتی سرکار نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کیا بلکہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھا کر اس کی سلامتی پر بھی خطرات کی تلوار لٹکانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ چنانچہ اس بھارتی جنونیت کے باعث ہی دنوں ممالک کے مابین تین جنگوں کی نوبت آئی اور پاکستان پر یہ جنگیں خود بھارت نے مسلط کیں جبکہ 71ءکی جنگ میں بھارت نے اپنی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ بھارتی انتقام کی آگ اس پر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی چنانچہ اس نے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کیلئے بھی سازشی جال پھیلانا شروع کر دیا، جس کے تحت اس نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور اپنی ایجنسی ”را“ کو پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کا ٹاسک بھی سونپا جس کی بنیادپر سندھ طاس معاہدہ سے انحراف کرکے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاﺅں کا رخ اپنی جانب موڑنے اور پاکستان کو پانی کے ایک ایک خطرے سے محروم کرنے کی گھناﺅنی سازشوں کا آغاز کردیا گیا۔ اسی طرح بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو غیر موثر بنانے کیلئے سقوط ڈھاکہ کے باعث مایوسی کے دلدل میں دھنسے پاکستان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا اور 1972ءمیں شملہ میں پاکستان کو باہمی معاہدے پر مجبور کیا اور اسے پابند کردیاکہ کسی بھی تنازعہ کے حل کیلئے کسی عالمی یا علاقائی فورم پر جانے کے بجائے دو طرفہ مذاکرات کئے جائیں گے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی اور علاقائی فورموں کے راستے بند کرکے آج تک دو طرفہ مذاکرات کی نوبت بھی نہیں آنے دی اور ہر سطح کے مذاکرات کی میز خود رعونت کے ساتھ الٹاتا رہا ہے۔ منموہن سنگھ کے دور میں ممبئی حملوں کی آڑ میں تو بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کی انتہا کردی جب ممبئی میں مذاکرات کیلئے موجود وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کو عملاً دھکیل کر پاکستان واپس بھجوا دیا گیا اور پاکستان کو کشمیر کو بھول جانے کا سخت پیغام دے کر اس کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کردیئے گئے۔ وہ دن اور آج کا دن دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطح کے باضابطہ مذاکرات کی نوبت نہیں آ سکی جبکہ بھارت گزشتہ سال اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس بھی سبوتاژ کر چکا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے باہمی تنازعات ، بشمول مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دو طرفہ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا اور اس کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے مگر بھارت کبھی مذاکرات کی راہ پر نہیں آیا جبکہ بھارت کی موجودہ ہندوانہ انتہا پسند مودی سرکار نے تو پاکستان کے ساتھ عملاً جنگ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے جس کے باعث دونوں ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی علاقائی اور عالمی امن کیلئے بھی سخت خطرات پیدا کررہی ہے۔ یقیناً عالمی قیادتوں کو بھی اس امر کا ادراک ہے کہ علاقائی اور عالمی امن کی مسئلہ کشمیر کے قابل عمل اور ٹھوس حل سے ہی ضمانت مل سکتی ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر اس خطے میں امن و سلامتی پر ہمہ وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ اس کیلئے پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف بھارتی سازشوں کے سدباب کی ضرورت ہے جو تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ ان سازشوں کے تحت ہی بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ پاکستان کا کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بھی سبوتاژ کر ایا اور وہ پاکستان اور چین کے اشتراک عمل سے قائم ہونے والی اقتصادی راہداری کے بھی در پے ہے جبکہ مسلم دشمن مشترکہ سوچ کی بنیاد پر ٹرمپ، مودی گٹھ جوڑ بھی ہو چکا ہے جس کے تحت امریکہ اس خطہ میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی مکمل سرپرستی کر رہا ہے۔
پاکستان کیخلاف بھارتی جنونیت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امن کے سفیر کی حیثیت سے بھارت جانے والے پاکستانی کھلاڑیوں، فنکاروں، دانشوروں اور دوسرے مکاتب زندگی کے لوگوں کو بھی ڈرا دھمکا کر پاکستان واپس بھجواتا ہے اور پاکستان آنے والے بھارتی کھلاڑیوں ، فنکاروں اور دانشوروں کو بھی بھارت واپسی پرراندہ ¿درگاہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری میں شرکت کیلئے پاکستان آنے والے بھارتی کرکٹر اور فنکار نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ بھارت میں ہونے والا سلوک اس کی تازہ مثال ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپنا بیٹا قراردے کر بھارت سرکار اس کی سزائے موت کیخلاف عالمی عدالت انصاف میں اس کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے ۔ اس صورتحال میں بھارت سے ہرگز یہ توقع نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوگا۔ اس کے باوجود عمران خاں نے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ٹیلی فونک کال کے جواب میں اور پھر بطور وزیراعظم اپنی نشری تقریر میں بھی بھارت کو دوستی اور تجارت کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی اور اسے مذاکرات کی میز پر مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات طے کرنے کا کہا۔ اگر مودی سرکار یہ پیشکش قبول نہیں کرتی تو پھر پاکستان کے پاس بھارتی ہٹ دھرمی کے خلاف عالمی فورموں سے رجوع کرنے کا آپشن موجود ہے۔ آئندہ ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی شرکت طے ہو چکی ہے اس لئے انہیں بہترین سفارتکاری کی بنیاد پر اس عالمی فورم کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے خلاف جاری بھارتی سازشیں بے نقاب کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بروئے کار لانے کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کا راستہ یقیناً مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ حل سے ہی نکلے گا۔

ای پیپر دی نیشن