نئی کابینہ اورخدشات

گزشتہ سات سال سے تبدیلی کا شور مچاتے مچاتے آخر کار پاکستان کے وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کو موقع مل ہی گیا کہ وہ ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کےلئے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنا سکیں، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 70سال سے زیادہ عرصہ سے رائج اور مسلط نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے مگر ہوگا کیسے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔دراصل کوئی نظام بھی مکمل طور پر برا نہیں ہوتا اصل مسئلہ اس کو چلانے والوں کی نیک نیتی اور خلوص کا ہوتاہے۔ ہمارے ہاں چونکہ حکومتی نظام میں بہت سے تجربے ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ کوئی تسلسل رہاہے اور نہ ہی کوئی نظامmatureہوسکاہے۔ نئے آنے والے نے اپنی مرضی کے مطابق اسے چلانے کی کوشش کی اور نئے نئے تجربے کئے۔ملک میں ایک نظام بہر حال موجود ہے جسے یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں صرف ضرورت کے مطابق چند ترامیم کرکے اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے کیونکہ آخر کار اسی کے تحت ملک چل رہاہے اوریہ بھی نہیں کہ ہرچیز ہی بری ہے اب چونکہ جناب عمران خان کو ملک و قوم کی بھرپورخدمت کا موقع ملا ہے تو نہ صرف پوری قوم بلکہ دنیا بھر کی نظریں ان پر ہیں، انہوں نے قوم سے بہت سارے وعدے کررکھے ہیں جن کا محور تبدیلی ہے۔ لہٰذا اب انہیں کچھ کرکے دکھانا ہوگا اور اس کےلئے ان کے پاس وقت بھی زیادہ نہیں کیونکہ جتنی امیدیں زیادہ ہوتی ہیں اتنا ہی صبر بھی کم ہوتاہے، عمران خان نے اپنی سوچ اور اور بیانئے کی وجہ سے اپنی ذات کو ہی مرکز اور محور بنا کر پیش کیاہے ان کے حامی صرف ان پر اعتماد کرتے ہیںاور ان سے انقلابی تبدیلیوں کی توقع رکھتے ہیں ان کی ذات کو ایک دیومالائی کردار کے طور پر سوچا اور ابھارا جاتاہے۔ان کی ذات کو ایک ہیرو اور ہرقسم کی غلطی یا کمزوری سے بالا تر سمجھا اور پیش کیاجاتاہے، دراصل یہ سارا تصور ان کے ایک کرکٹر اور کامیاب کپتان ہونے کی بناءپر اخذ کیاجاتاہے، ایک لیڈر کی ذات ہی منزل کا تعین کرتی ہے اور پھر اسے حاصل کرنے کا راستہ بتاتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک کرکٹ ٹیم کی قیادت اور ملک کی سربراہی کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیڈرکے ساتھ ساتھ ٹیم کایکجا، مستعد اور قابل ہونا ہی کامیابی کی ضمانت ہے، اپنے مقاصد کے حصول کےلئے جناب عمران خان نے اپنی ابتدائی ٹیم کا اعلان بھی کردیاہے اس ٹیم میں وفاقی کابینہ کے ارکان اور صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزراءاعلیٰ بھی شامل ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں اگر اس ٹیم کا بغور جائزہ لیاجائے تو اس پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھتے ہیں، یہ بات ہر وقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ عمران خان کا نظریہ اور سوچ انقلابی اقدامات کی متقاضی ہے لہٰذا اس کو عملی جامہ پہنانے کےلئے ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جس کی سوچ، نظر اور کمٹمنٹ کسی بھی شک وشبہ سے بالاترہو۔ اس ٹیم کے سارے رکن تو عمران خان کے قافلے میںاب تک شامل ہی نہیں تھے کیونکہ یہ ایک مخلوط حکومت ہے، ایم کیو ایم، بی اے پی اور جی ڈی اے سے تعلق رکھنے والی کابینہ کے اراکین تو عمران خان کی سوچ اور نظریئے سے اس طرح مطابقت نہیں رکھتے جیسے ان کے پرانے ساتھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کی طرف سے شامل کئے گئے بیشتر ارکان بھی حال ہی میں PTI میں شامل ہوئے ہیں کابینہ کی ایک بڑی تعداد یا تو ماضی کی کئی حکومتوں کا حصہ رہی ہے یاپھر عمر کے اس حصے میں ہے جہاں توانائی اور ہمت بھی اس طرح نہیں ہوتی جیسے کہ ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ماسوائے اسدعمر اور عامر کیانی کے کوئی اور رکن عمران خان کی تخلیق کردہPTIکا شروع سے حصہ نہیں رہا، اگریہ لوگ ماضی کی حکومتوں کا حصہ ہوتے ہوئے کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکے تو اب ایسا کس طرح کرسکیںگے،آخر کار ٹیم لیڈر نے ہر کام خود تو نہیں کرنا ہوتا وہ تو ڈائریکشن دے سکتاہے، صرف یہ کہنا کہ صرف کپتانMattrکرتاہے ایک حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے، میچ صرف ایک شخص نہیں بلکہ پوری ٹیم کھیلتی ہے جس میں ہر کسی کا کردار ہوتاہے ٹیم کی تشکیل ہی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کپتان مقصد کے حصول کےلئے کس قدر سنجیدہ ہے ابھی چونکہ حکومت ملک کی باگ دوڑ صرف چند روز قبل ہی سنبھالی ہے اس لیے ابھی اس کی کارکردگی تو صرف شروع ہوئی لہٰذا ابھی سے شکوک وشبہات کا شکار تو نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی عمران خان نیازی کی نسبت پر شک کرنا چاہیے کیونکہ انہیں بہرحال اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کا بھرپور موقع ملنا چاہیے، چونکہ ان کا ایجنڈا بہت انقلابی ہے لہٰذا اس پر عمل کرنے کےلئے جس طرح کی ٹیم کا تصور ذہن میں ابھرتاہے عملاً ایسا نظر نہیں آیا۔
کسی شخص کی ذات نظام یا ریاست سے بڑی نہیں ہوتی لہٰذا اسے بہرحال لوگوں پر انحصار کرنا پڑتاہے اور اسی لیے اس کی ٹیم کے لوگ ہر لحاظ سے بہترین ہونے چاہئیں، عمران خان کی پارٹی میں یقیناً ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اگر موقع دیاجائے تو وہ کم ازکم حقیقی تبدیلی کےلئے خلوص نیت سے کوشش کرسکتے ہیں، آزمائے ہوئے گھوڑوں سے اگر اجتناب کرلیاجاتا تو بہتر تھا لیکن شاید جناب عمران نیازی صاحب سمجھتے ہیں اگر ٹیم کوئی بھی ہو اس سے اتنا فرق نہیں پڑتاکیونکہ وہ سب کچھ خود کرسکتے ہیں لیکن یہ مفروضہ کس حد تک درست ثابت ہوسکتاہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن