پاکستان جو 70 سال سے مسائلستان بنا ہوا ہے۔الیکشن 2018 پر قومیں نظریں جمائے ہوئے تھیں کہ شاید 70 سال بعد الیکشن کے نتیجے میں پاکستان کو ایسی قیادت ملے جو پاکستان کی پاکستانیت اور اس کے اسلامی تشخص پر پہرا دیتے ہوئے اس کو اسلامی فلاحی سلطنت بنائے ۔مگر افسوس کہ یہ ساری امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں اور الیکشن پر سلیکشن غالب آگئی۔ ایک غریب ملک جو دنیا کے 216 غریب ممالک میں 173 ویں نمبر پرہے ۔جس کے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی نچلی ترین سطح تک پہنچے ہوئے ہیں اس میں اس کی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن ہوئے۔اور اس پر تقریباً 450 ارب روپے خرچ کر دیے۔ انواع و اقسام کی دھاندلی میں انتخابات کے مقاصد ایک خواب کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں ۔اور پاکستان کے مسائل مزید گھمبیر صورت حال اختیار کر گئے زبان خلق پر الیکشن ایک افسانوی داستان کی حیثیت اختیار کر گیا۔کسی نے انہیں انجینیرڈ الیکشن کہا اور کسی نے پھیکے پھیکے انتخابات کا نام دیا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پری پول رگنگ ہوئی ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں انتخابی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ،کچھ لوگوں نے نتائج میں تاخیر کو مشکوک عمل قرار دیکر دھاندلی کا الزام لگایا ۔پولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے وقت دھکّے مار کر باہر نکالنا،نتائج نہ دینا،خواتین پولنگ ایجنٹس کی تذلیل کرنا ،45 فارم پر رزلٹ نہ دینا،ایسے کارناموں کی خبر تو تواتر تک جا پہنچی ہے ۔کہیں کوڑا کنڈیوں اور پولنگ سٹیشن بننے والے سکولوں کے ڈیسکوں سے ملنے والے بیلٹ پیپرز کی ایک بڑی تعداد نے الیکشن کی ساکھ کو ہلادیا، کہیں مسترد شدہ ووٹوں کی شکل میں دھاندلی کا انکشاف کیا ،کہیں سوشل میڈیا پر انتخابی عملے کو ووٹرز کی جگہ بیلٹ پیپرز پر خود ہی مہریں لگانے کی خدمت سرانجام دیتے ہوئے دکھایا گیا،کہیں کہا گیا یہ پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین الیکشن تھے ،کسی نے کہا مبینہ دھاندلی ہوئی،کسی نے کہاسرعام دھاندلی ہوئی ،کسی نے کہا دھاندلی نہیں جھرلو پھیرا گیا۔یورپی یونین کے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات ،2013 کے انتخابات سے کسی طور پر بھی بہتر نہیں ،کچھ غیر جمہوری قوتوں نے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعینات کرنا ناقابل فہم عمل ہے۔
فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک کا یہ کہنا کہ ”پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں پر ووٹروں کی طویل قطاریں ثابت کرتی ہیں کہ مسائل کے باوجود لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بڑھ رہا ہے ۔الیکشن کا دن کسی بڑے تنازع سے پاک رہا ۔فوج ،پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کی وجہ سے لوگوں میں احساس تحفظ بڑھا “اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ یہ بھی برسرعام کہا گیا۔
”اب کی بار انتخابات میں دھاندلی کا نیا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔سارا دن پُرامن پولنگ کا ڈرامہ رچایا گیا لیکن رات ڈھلتے ہی مخصوص حلقوں میں پولنگ عملہ کو باہر نکال دیا گیا اور ان کی عدم موجودگی میں گنتی کروا کر فارم45 کی عدم دستیابی کا بہانہ بنا کر خود ساختہ نتائج کا اعلان کیا گیا“
الیکشن کمشن پولنگ ختم ہونے کے تقریباً 13 گھنٹے بعد بھی نتائج جاری کرنے میں ناکام رہا کہا جاتا رہا۔ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم R,T,S کام کرنا چھوڑ گیا ،کبھی جاتا رہا ،تکنیکی وجوہات سے سسٹم بیٹھ گیا ہے۔یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کسی نے ایسے اہم موقع پر اپنے منصب پر کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور کون ڈٹ کر کھڑے ہونے کے وقت بیٹھ گیا تھا۔بہر حال یوں ان تیرہ گھنٹوں میں نہایت کم ٹرن آو¿ٹ ہونے کے باوجود صندوق بھر چکے تھے۔
یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے ہارنے والی سیاسی جماعتوں کا دھاندلی کا واویلا کرنا ایک کلچر بن چکا ہے۔مگر انتخابی عمل کے عام پہلوو¿ں کو سامنے رکھ کر ان انتخابات کو ہرگز شفاف انتخابات نہیں کہا جا سکتا ہے۔چیف الیکشن کمیشن اور سیکرٹری الیکشن کمشن کا شکایات کانوٹس لیے بغیر سیاسی جماعتوں کے الزامات کو بے بنیاد قرار دینا اور جیتنے والوں کی طرفداری کرنا بھی ہرگز مستحسن امر نہیں ہے۔جب پوری قوم انتظار کی سولی پر لٹک رہی تھی شکوک و شبہات جنم لے رہے تھے۔
ایسے موقع پر R.T.Sکا خراب ہونا پاکستان کے ایک اہم موضوعات میں سے ایک موضوع بنا رہے گا۔ اگر یہ سسٹم خراب تھا تو اس کا بیک اپ کہاںسے تھا۔نتائج رکنے اور تاخیر ہونے کے مسئلے پر بالآخرالیکشن کمیشن اور نادرا آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ نادرا نے یہ دعویٰ کیا کہ الیکشن کے دوران R.T.S کریش نہیں ہوا تھااور کہا !ہم نے پچاس فی صد نتائج R.T.Sپر حاصل کر لئے تھے۔
نادرا ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن نے پریزائیڈنگ افسروں کوR.T.S پر نتائج دینے سے روکااور پریزائیڈنگ افسروں کو ریٹرننگ افسروں کے پاس نتائج جمع کرانے کی ہدایت کی۔ اور اب خود کو بچانے کے لئے نادرا پر الزام عائد کر رہا ہے۔ تاہم الیکشن کمشن کا مو¿قف ہے کہ نتائج آنے پر آر ۔ ٹی۔ ایس کریش تھا سسٹم کریش ہونے کے نتائج آر اوز کو پہنچانے کا کہا تھا۔ بہرحال پاکستان کے تمام مسائل کی طرح آئین کے آرٹیکل220 کے تحت ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو سسٹم کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔
الیکشن کمشن اپنی پارسائی کا قصہ چھیڑے ہوئے ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا جواب دینے والے ادارے اس بات پر اڑے ہوئے ہیں اگر انتخابی عمل میں کوئی مداخلت ہوتی ہے تو اس کے ثبوت لائے جائیں حالانکہ یہ بات ساری دنیا کو معلوم ہے کہ انتظامی اختیارات کے بے جا استعمال کے ثبوت سامنے لانا کسی بھی فرد یا جماعت کے بس میں کس قدر ہو سکتا ہے؟