ابھی یا کبھی نہیں!

جنت ارضی کشمیر لہو لہو ہے۔ 71 برس قبل ہندوستان نے برطانوی تائید اور آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن (جو تقسیم ہند کے بعد کئی برس تک گورنر جنرل بھارت بھی رہے) کی عملی معاونت سے فوج کشی کرکے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کرلیا تھا۔ پاکستان کے گورنر جنرل، بابائے قوم قائداعظم نے پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جوابی کارروائی کا حکم دیا تو اس نے قائداعظم کے حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا اور جواز پیش کیا کہ وہ صرف تاج برطانیہ کے وفادار ہیں اور جب تک انہیں ملکہ برطانیہ حکم نہیں دیتیں وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ اس وقت بھی کشمیری مجاہدین نے خود مزاحمت کرکے قریباً 31 فیصد کشمیر کو بھارتی فوج کے زیرقبضہ آنے سے بچالیا یہی علاقہ آزاد جموں و کشمیر کہلاتا ہے۔ غالباً یہ فرنگی سامراج کی سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کا بھی حصہ تھی جو دوسری جنگ عظیم میں مار پڑنے پر چین، ہندوستان اور افریقہ میں زیر تسلط اپنی کالونیاں چھوڑنے پر مجبور تو ہوگیا تھا لیکن ہندوستان سے جاتے جاتے سونے کی چڑیا کہلانے والے برصغیر پاک و ہند میں ایسی سازش کے تانے بانے قائم کر گیا کہ دونوں نو آزاد مملکتیں (بھارت اور پاکستان) 72 برس سے باہم برسر پیکار ہیں اور اپنے اپنے وسائل جنگی جنون کی نذر کرکے اپنی اپنی راہ کھوٹی کر رہی ہیں جبکہ ساری کمائی وہ اسلحہ ساز قوتیں سمیٹ رہی ہی جن کے فطری حلیف برطانیہ کی سوچ یہ تھی کہ وہ اگلے سو پچاس برسوں میں پھر سونے کی چڑیا کو اپنے تسلط میں جکڑ سکے گا۔ وہی فرنگی سامراج جو یہاں تجارت کے بہانے ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے نام سے آیا تھا اور اب یہودی استعماریت کے کندھے پر سوار ہو کر امریکی قیادت میں ’’ملٹی نیشنل کمپنیز‘‘ کی صورت میں پھر سے برصغیر پاک و ہند میں اپنے خونی پنجے گاڑ رہا ہے۔ 1947ء میں آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاتما گاندھی اور قائداعظم سے فرمائش کی کہ تین برس کیلئے اسے بھارت اور پاکستان کا جوائنٹ گورنر جنرل بنا دیا جائے، قائداعظم نے ان کی تجویز مسترد کردی جبکہ عیار بنیا اپنے مفادات کیلئے بخوشی رضامند ہوا اور اس نے حسب خواہش فوائد بھی حاصل کیے۔ سب سے پہلے تو اعلان شدہ چھ بڑے اضلاع امرتسر، گورداس پور، جالندھر، لدھیانہ، فیروز پور اور پٹھان کوٹ کو پاکستان کے حصہ سے فارغ کرکے زبردستی بھارت میں شامل کرلیا گیا اور یوں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے متحدہ پنجاب کو دو ٹوٹے کر دیا گیا۔ اس کے فوری بعد 1948ء میں کشمیر پر قبضہ کرکے پاکستان کی شہ رگ اور آبی وسائل کی پائپ لائن پر بھاری پتھر رکھ دیا گیا۔
1965ء میں اسی ایشو پر پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی جو 6 سے 23 ستمبر یعنی 18 روز تک جاری رہی، لیکن 1966ء میں سوویت یونین کے دبائو پر ہونے والے پاک بھارت معاہدہ تاشقند کے ذریعے دونوں ممالک کو جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جانا پڑا اور یوں اس جنگ میں پاک فوج نے کشمیر کا جو بہت سارا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرالیا تھا واگزار کرنا پڑا۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم، قائدعوام شہید ذوالفقار علی بھٹو معاہدہ تاشقند سے عدم اتفاق کرتے ہوئے بطور وزیر خارجہ استعفیٰ دیکر عوام کی صفوں میں آ گئے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔1971ء میں دوسری پاک بھارت جنگ میں اگرچہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا، تاہم کشمیر کے محاذ پر پاک فوج دریائے توی پار کرکے بہت سارا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرانے میں کامیاب رہی۔ اس وقت کے پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے جنگ بندی سے قبل ہی عالمی دبائو پر پاک فوج کو بھارتی تسلط سے آزاد کرائے گئے۔ کشمیری علاقے سے بلاجواز اور یکطرفہ پسپائی کا حکم دیا جسے ڈسپلن میں بندھے قومی ادارہ کو تسلیم کرنا پڑا۔ شہید بھٹو نے بھارت سے مذاکرات کے بعد شملہ معاہدہ کے ذریعے نہ صرف 93 ہزار پاکستانی فوجی چھڑائے جو جنگ 1971ء میں بھارتی سینا کے آگے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے باعث جنگی قیدی بنے تھے بلکہ بھارت نے پاکستان کے ساڑھے پانچ ہزار مربع میل (8800 مربع کلومیٹر) علاقے کو بھی واگزار کرالیا۔ شملہ معاہدہ میں تنازع کشمیر کو باہمی گفت و شنید سے طے کرنے پر اتفاق رائے ہوا۔ بعدازاں شہید بھٹو نے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور مستقبل حل کیلئے قابل عمل منصوبہ بندی کی مگر انہیں مہلت نہ ملی اور اپنے کشمیر پلان پر تصفیہ سے قبل ہی انہیں جاہلوں کے ہاتھ سے جام شہادت پینا پڑا۔ آج شہید بھٹو کے بدترین مخالفین بھی ان کے تدبر، فہم و ادراک، دوراندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا تو آج نہ صرف ہمارے خطے سمیت پورے ایشیا بلکہ عالمی کینوس پر بھی حالات یکسر مختلف ہوئے۔ مسئلہ کشمیر بھی پائیدار امن سے ہمکنار ہو چکا ہوتا اور جنوبی ایشیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بیرونی داخل اندازی کا بھی وجود تک نہ ہوتا۔آج اکھنڈ بھارت اور ’’ہندو توا‘‘ جیسی انتہا پسندی کا سرخیل نریندر مودی کشمیر میں آگ اور خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے اگر اس وقت پاکستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ منتخب حکومت ہوتی تو مودی کو کبھی اس طرح کا مس ایڈونچر کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ الیکشن 2018ء کے متنازع ترین نتائج اور چند پریشر گروپس کے ’’شامل واجا‘‘ ہونے کے باوجود انتہائی معمولی اور ہر وقت دائو پر لگی عدد اکثریت کی موجودہ انصافی حکومت حقیقت میں جائے خود بہت بڑی ناانصافی بن کر رہ گئی ہے۔ موجودہ حکمران گروپ اپنے کپتان سمیت فہم، ادراک، تدبر، دوراندیشی، ہوم ورک اور ویژن سے یکسر محروم ہے، وہ محض ’’ہز ماسٹرز وائس‘‘ بن کر وقت گزاری کر رہا ہے اور دوسروں کی لوٹ مار کا واویلا مچا کر سیاسی انتقام کی بدترین مثالیں قائم کرتے ہوئے یوٹرن کے عالمی ریکارڈز بنا رہا ہے۔ اپنی نااہلی کے باعث موجودہ حکومت ٹرمپ اور مودی جیسے اسلام دشمنوں کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔اس تکلیف دہ اور پریشان کن صورتحال میں کشمیری مظلوم ہی نہیں بلکہ پاکستانی محکوم بھی حد درجہ اضطراب میں ہیں۔ بلاشبہ پوری پاکستانی قوم اس بات پر کلی اتفاق رکھتی ہے کہ ’’ابھی…یا پھر کبھی نہیں‘‘(Now Or Never) مگر اس کیلئے حکومت پاکستان کا عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ہونا اور ان کی قرار واقعی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے بھارتی اسرائیلی سازش کو آگے بڑھ کر روکنا لازم ہے۔ اگر ہم اب بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے تو بقول شہید ذوالفقار علی بھٹو ’’ہمالیہ واقعی خون کے آنسو روئے گا‘‘

ای پیپر دی نیشن