وزیراعظم نواز شریف نے توانائی کے مسائل کے حل کے لئے کابینہ کی خصوصی کمیٹی بنائی (میں بھی اس کارکن تھا) ۔ہر ہفتے اس کا اجلاس ہوتا۔مجھے اندیشہ تھا کہ پی ٹی آئی نے اگر 2014 کے تباہ کن دھرنوں کی طرح دوبارہ اُس طرح کی ملک دشمن مہم جوئی کی توCPEC کے تحت بجلی کے منصوبوں پر عمل درآمد بھی محال ہو جائے گا اور ہم نے انتخابی مہم میں 2018 تک ملک سے اندھیرے دور کرنے کے جو وعدے کیے تھے ،ان کی تکمیل نہ ہو سکے گی۔ میرے ذہن میں ایک آئیڈیا تھا کہ ہمیں CPEC کے تحت بجلی کے منصوبوں کے علاوہ دیگر منصوبوں کا بھی فیصلہ کرنا چاہیے، اس کے لیے گیس سے چلنے والے 5ہزار میگا واٹ کے منصوبوں پر بھی کام ہونا چاہیے(اوریہ منصوبے ہمارے اپنے وسائل سے ہوں۔) میں نے وزیراعظم سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ آئیڈیا اچھا ہے ۔آپ اسے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں کیوں پیش نہیں کرتے؟
میں نے کمیٹی کے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی تو سخت ناخوشگوار ردعمل کا سامنا ہوا ۔کمیٹی کے ارکان شدید مخالفت پر کمر بستہ تھے اور اس کے لیے دور دور کی کوڑیاںلا رہے تھے۔ کسی نے کہا ، دیکھیں نیلم جہلم پروجیکٹ سے2016میں جنریشن شروع ہو جائے گی۔کسی نے کہا، 2017 میں وہ تربیلا4 بھی توآرہا ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
میرا مئوقف تھا کہ بد قسمتی سے قومی ترقی کے اہم منصوبوں میں برسوں کی تاخیر ہماری قومی روایت بن چکی ہے جس سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔مثلاً نیلم جہلم 6 سال کی بجائے 19سال میں مکمل ہونے جا رہا ہے۔ہمیں اپنی قومی ضروریات کے لیے قلیل مدتی (شارٹ ٹرم) منصوبوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔کمیٹی کے ارکان کے رویّے سے یوں لگا جیسے ان کے خیال میں، اپنے مجوزہ منصوبوں کے حوالے سے مجھے کوئی خاص دلچسپی ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ مخالفت انتہا کو پہنچ رہی ہے تو میں نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، جنابِ وزیرِاعظم! ملک سے اندھیرے دور کرنے کا وعدہ آپ نے کیا تھا۔ لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ وہ وعدہ کیا ہوا؟ اسکے بعد وہ میرا گریبان بھی پکڑیں گے۔ لوگ کہیں گے ،یہ جو 21 ارب ڈالر خزانے میں پڑے تھے ، کیا ہم نے انہیں چاٹنا ہے؟ ان مخالفت کرنے والوں میں سے اس وقت کوئی نظر نہیں آئے گا۔ اُس روز اگر وزیراعظم اپنی سیاسی زندگی کے تجربے اور قومی مسائل کے حوالے سے اپنی بصیرت کی روشنی میں میری تجویز کی تائید نہ کرتے تو پاکستان آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا۔
کابینہ کمیٹی نے میری تجویز کی حمایت کردی، البتہ ان منصوبوں کو5 ہزار میگاواٹ کی بجائے 3600 میگاواٹ کر دیا گیا۔ وہ جو پنجابی کا محاورہ ہے ـ" جیہڑا بولے، اوہی کُنڈا کھولے "(مفہوم : دستک سن کر جو گھر کے اندر سے آواز دے ، وہی جا کر دروازہ کھولے )چونکہ یہ میری تجویز تھی، اس لیے اس کی منظوری کے ساتھ وزیراعظم نے ان منصوبوںکے انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دی اور ہم سب اس کام میں جُت گئے۔ مر حوم والد صاحب کا فرمان پھرمشعلِ راہ تھا ،''مسافر شب کو اٹھتا ہے جو جانا دور ہوتا ہیــ" ۔ تمام متعلقہ وفاقی و صوبائی وزراء (منصوبہ بندی،بجلی، خزانہ اور پٹرولیم ) ان کے سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ افسران ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے تھی۔ زمینوں کی خریداری، کنسلٹینسی اور بولی (بِڈنگ )سمیت تمام مراحل برق رفتاری سے طے پا رہے تھے۔ احد چیمہ اور راشد لنگڑیال جیسے مستعد ،باصلاحیت اور دیانتدار افسران سرگرم تھے ، تو پرائم منسٹر ہاؤس سے متعلق معاملات میں فواد حسن فواد تاخیر نہ ہونے دیتے ۔ وزیر اعظم ہفتہ وار میٹنگ میں ان منصوبوں پر عمل درآمد کی بریفنگ لیتے اور فوری فیصلے صادر کرتے ۔کابینہ کمیٹی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی تجویز پر طے پایا کہ گیس پاور پلانٹس کے ان 3منصوبوں میں سے 2 منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت وسائل مہیا کرے گی اور ایک منصوبے کے لئے وسائل کی فراہمی پنجاب کے ذمے ہوگی ۔ ان میں سے ایک منصوبہ بھکی شیخوپورہ میں اور ایک ایک، حویلی بہادر شاہ اور بلوکی میںتھا(بعد میں حویلی بہادر شاہ میں چوتھا منصوبہ بھی شامل ہوگیایہ بھی پنجاب کا اپنا منصوبہ تھا۔ اسکی دلچسپ کہانی آئندہ پیش کروں گا)
اگلی ہفتہ وار میٹنگ میں ایک وزیرِ با تدبیر نے تجویز پیش کی کہ جناب وزیر اعظم! ہمارے موجودہ Tenure کی تقریباً آدھی مدت باقی رہ گئی ہے اور یہ منصوبے اتنے بڑے ہیں کہ قوائد و ضوابط کے مطابق ان کے آغاز ہی کے لیے بہت وقت لگ جائے گا مثلاً ٹینڈروں کی طلبی، پھر ان کی منظوری ، دیگر سرکاری کاروائی اور غیر ملکی قرضو ںکا حصول وغیرہ، تو کیوں نہ ہم ایمرجنسی لگا کر PPRAرولز کو معطل کر دیں، اسطرح کم و بیش 6 ماہ بچ جائیں گے۔
اس پر میرا فوری جواب تھا کہ جناب وزیر اعظم! معزز رُکن کی تجویز میں بڑا وزن ہے، اوردل کو بھاتی ہے، لیکن اگر ہم نے قوائد و ضوابط میں کوئی ردوبدل اور طریقِ کار میں کوئی کمی بیشی کی تو ہماری تما م محنت اور دیانتداری کی باوجود یہ ایک بڑا سکینڈل بن جائے گا۔ہماری نیت کتنی بھی نیک کیوں نہ ہو لیکن شفافیت پر سوال اُٹھیں گے، اس لیے ہمیں قوائد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نے میری بات سے اتفاق کیا اور یہ منصوبے تمام تر شفافیت کے ساتھ آگے بڑھے۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں گیس سے بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے منصوبے تھے۔ " بولیـ" (Bidding) میں دنیا کی مشہور کمپنیوں نے حصہ لیا، امریکہ کی جنرل الیکٹرک(GE) ،جرمنی کی سیمنز(SIEMENS)، جاپان کی مٹسوبشی(MITSUBHISHI) ، کوریا کیHyundaiاور تُرکی کی ENKA
جنرل الیکٹرک نے سب سے کم قیمت کے باعث "بولی" (Bid) جیت لی ۔یہ مشینری کی بڑی مشہورفراہم کنندہ (سپلائیرز ) تھی،جسے چینی کمپنیوں کے اشتراک (Joint Venture)سے کام مکمل کرنا تھا ۔ جنرل الیکٹرک نے سخت ترین مقابلے (Cut Throat Competition) کے ساتھ یہ بولی جیتی تھی۔ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی ، بجلی پیدا کرنے کے یہ منصوبے، کم ترین قیمت کے لحاظ سے، پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کی حالیہ تاریخ میں اپنی مثال آپ تھے۔
نیپرا(NEPRA) کی کیپٹل کاسٹ لمٹ (Capital Cost Limit)ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر فی میگاواٹ تھی۔2006 میں گدو پاور پلانٹ کاآغاز ہوا تو اسی جنرل الیکٹرک نے فی میگاواٹ ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر کی بولی دی تھی۔ ماضی میں نجی شعبے میں اسی طرح کے گیس پاور پلانٹس کی فی میگاواٹ قیمت ،ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر سے لے کر دس لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ رہی تھی۔جب کہ ان تین منصوبوں کی اوسطاً قیمت 4 لاکھ55 ہزار ڈالر فی میگا واٹ تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے ان منصوبوں میں ٹربائن ایفیشنسی60 فیصد تھی جبکہ ماضی میںیہ کبھی 54فیصد سے اوپر نہیں رہی تھی۔ اس طرح قومی خزانے کو ان تین منصوبوں میں( اُس دور کے ڈالر ریٹ کے حساب سے)112ارب روپے کی بچت (Net Saving)ہوئی ۔بچت کی بات چلی ہے تو یہ بات بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ چولستان کے پہلے سولر پاور پروجیکٹ کے وقت نیپرا کا ٹیرف 17سینٹ فی یونٹ تھا۔ ہم نے 14 سینٹ فی یونٹ Achieveکیا جس سے تقریبا 2 ارب کی بچت ہوئی۔یوں نوازشریف کی زیرِقیادت، مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں، تاریخ کی اس سب سے بڑی بچت سے ، قومی خزانے کو نہ صرف 114 ارب روپے کا فائدہ ہوا بلکہ دنیا میں پاکستان کی شہرت اور نیک نامی میں بھی اضافہ ہوا۔(جاری ہے)
کابینہ کمیٹی میں میری تجویز کی سخت مخالفت کے بعد ۔۔۔۔
Aug 25, 2019