مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دی جا رہی ہے۔ نوے لاکھ انسان دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ بیس روز سے بنیادی ضروریات سے محروم گھروں میں قید ہیں۔ مردوں کو گھروں میں گھس کر گرفتار کیا جا رہا ہے تا کہ کرفیو اٹھانے کی صورت میں بھارتی فورسز سے مزاحمت کا زور توڑا جا سکے۔ کشمیری جوان بہنوں بیٹیوں کے اغوا کی دل خراش خبریں بھی سنی جا رہی ہیں۔ دشمن نے آنکھوں پر ظلم کی پٹی باندھ لی ہے۔ کشمیریوں سے نفرت میں انہیں مارنے مٹانے کی تمام حدود پار کی جا رہی ہیں۔جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کی المناک صورتحال کے بعد پاکستانی کمیونٹی اب کچھ متحرک دکھائی دے رہی ہے اور دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستانیوں کا کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ذریعہ مظاہرہ اور احتجاج ہیں جبکہ کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات کیلئے حکومت پاکستان کو اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی قانونی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں گرفتاریوں کی اطلاعات ہیں لیکن انڈین پولیس اس بارے میں مکمل معلومات نہیں دے رہی ہے۔
میڈیا نے دو ایسی خواتین سے ملاقات کی جن میں سے ایک کا بیٹا جبکہ ایک کا شوہر لاپتہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز ان کے پیاروں کا اٹھا کر لے گئی ہیں۔انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومت کی جانب سے کرفیو میں نرمی اور حالات میں بہتری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے مگر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب بھی سیکیورٹی اہلکار آدھی رات کو ان کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں، گھروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے لڑکوں کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مواصلاتی نظام کی معطلی، مسلسل کرفیو اور سخت پابندیوں کے باعث لوگوں کو بچوں کیلئے دودھ، زندگی بچانے والی ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے طلباوطالبات حصولِ تعلیم کیلئے جن ممالک کا رخ کرتے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ حکومتِ پاکستان ایسے طالبعلموں کو سکالرشپس بھی دیتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی دو سو کے قریب ایسے طلبا و طالبات پاکستان میں زیرِ تعلیم ہیں۔
انڈیا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق کے خاتمے کے بعد وادی میں سکیورٹی لاک ڈاؤن اور مواصلاتی رابطوں کی بندش کے بعد سے یہ طلبہ بھی اپنے اہلخانہ سے رابطہ کرنے سے محروم رہے اور اب مواصلاتی رابطوں کی جزوی بحالی کے بعد بھی ان کی پریشانی کچھ کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔میڈیا کے مطابق جہاں کہیں کرفیو میں نرمی کی گئی ہے وہاں دکاندار اپنی دکانیں نہیں کھول رہے ہیں اور سٹرکوں پر صرف ہنگامی نوعیت کی ٹریفک ہی موجود ہے۔ ایک ڈیڈ لاک کی سی صورتحال ہے جس کے بیچ عوام میں خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان جموں کشمیر کا دوسرا بڑا سانحہ دیکھ رہا ہے۔1947میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی ایک سے الحاق کر لیں یا اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں، کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی، اس لیے ریاست کے عوام نے ہندو مہاراجا کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور عوام اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، بھارت نے ہندو مہاراجا کے الحاق کو جواز بنا کر ریاست میں اپنی فوجیں داخل کر دیں، دوسری طرف مجاہدین نے کشمیر کے بہت سے علاقوں پر مہاراجا کا قبضہ ختم کرکے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے پاکستان کے زیر انتظام دے دئیے۔ اس دوران بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں ایک کمیشن کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کا فیصلہ کیا گیا جس کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرونے تسلیم کیا اور رائے شماری کے فیصلے کی تائید کی جس کے مطابق کشمیر کے عوام رائے شماری کے ذریعے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرینگے۔ بھارت نے بھی یہ فیصلہ تسلیم کیا۔ لیکن بعد میں بھارت اپنے اس وعدے سے منحرف ہو گیا اور تاحال ریاست کشمیر کے الحاق کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ مودی سرکار نے گزشتہ دو ہفتوں سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔کرفیو لگا کر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔قابض بھارتی فوج نے اپنے جارحانہ اقدامات کے دوران ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا ہے جس کے باعث جیلیں بھر گئی ہیں اور کئی مقامات کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ مسلسل کرفیو کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہر لمحہ سسکتی زندگی دم توڑنے لگی ہے، جگہ جگہ بھارتی فوج کے اہلکار تعینات ہیں، شاہراہیں بند، موبائل، نیٹ اور ٹرین سروس معطل ہیں۔بھارت کی برہنہ جارحیت کے سامنے دنیا بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ جموں و کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دی جا رہی ہے جس میں انسان دنیا کے سامنے دم توڑ رہے ہیں اور دنیا خاموش تماشائی بنی بے رحمی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔