کب ٹھہرے گا دَرد اے دِل۔۔۔۔۔

حکمِ خداوندی ہے کہ : بہترین انسان وہ ہے جس کا وجود دوسروں کیلئے فائدہ مندہو۔انسانی فطرت ہے کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر انسان اپنی حیثیت سے بڑھ کر ستاروں پہ کمند ڈالنے کی کوشش میں اپنی اپنی کہانیاں آنے والی نسلوں کو غور وفکر کیلئے چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا ئے فانی سے رخصت ہو جاتا ہے جو کہانیاں کبھی مشعلِ راہ اور کبھی باعثِ عبرت ہوتی ہیں ۔ 
اگر انسان غور فرمائے تو زندگیوں میں طوفان آنا بھی ضروری ہے تاکہ پتہ چلے کہ کون ہاتھ پکڑ کربھاگ رہا ہے اور کون ہاتھ چھوڑ کر ۔ پاکستان میں آج تک جتنے بھی لیڈر آئے انھوں نے قوم کو سبز باغ دکھا کر ایسا جادو کیاجو آج تک سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ ان میں دولیڈرز پہلے ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے غریب کو باہر نکالا اور دوسرے جناب عمران خان صاحب جنھوں نے اقبال ؒ اور قائدؒ کے پاکستان کو قائدِ اعظم ؒ کے ویژن کیمطابق اسلامی فلاحی ریاست (ریاستِ مدینہ) بنا نے کا وعدہ کر کے ایلیٹ کلاس کو باہر نکالا جو آج بھی پاکستان میں سابقہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں سے بربادیٔ گلستاں کی کہانیاں سنا کر پاکستان کو ریاست مدینہ بنا کر قوم کی کشتی کو کنارے لگا کر دنیا کا خوشحال ملک بنانے کا وعدہ نبھانے کا ہرروز تجدیدِ عہد کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر اس کا فیصلہ وقت کرے گاکیونکہ : منزل پر پہنچنے کیلئے ڈائریکشن کا ٹھیک ہونا ضروری ہے۔
اگر ہمیں لاہور جانا ہے اور ہم پشاور کی طرف سفر شروع کر دیں اور راستے میں پوچھیں کہ بھائی پھیرو کب آئیگا تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ پشاور کے راستے میں بھائی پھیرو کبھی نہیں آئیگا۔ میں نے بحیثیت سیاسی کارکن ہمیشہ دیکھا ہے کہ جو بادشاہوں کے سامنے واہ واہ کرتے ہیں ایک دن وہی اُن کو برباد کرتے ہیں ۔ لیڈر کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہترین ساتھیوں کاہونا ضروری ہے اگر کسی لیڈر کی ٹیم کا انتہائی اہم کھلاڑی رانا مبشر سے پوچھے کہ "یورپین یونین کیہڑا مُلک اے"تو کم ازکم میرے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے اور اس پر ضد ایک بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ احتساب کا ایجنڈا لیکر آنے والے عمران خان صاحب کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک ان کی صفوں میں آٹا ، چینی چوروں کے ساتھ ساتھ ریاستِ مدینہ میں شراب کے لائسنس دینے والے موجود ہیں ۔ اور اس وقت تک منزل دور ہوتی جائیگی جب تک ملک کا بڑا عہدہ رکھنے والوں کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں تک لینڈ مافیاز کی رسائی رہے گی۔ سابقہ حکمرانوں کی کرپشن اور طرزِ حکومت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہوگا جب وہ غلطیاں ہم خود نہ دہرائیں ۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کا اپنی جماعت کو ہر صورت مضبوط کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ آپکی سیاسی جماعتیں ہی ہیں جو آپ کو اسلام آباد تک لے کر جاتی ہیں جب جماعتیں مضبوط نہ رہیں تو پھر آل پارٹیز کانفرنسز کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لیے تاریخ سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ آج پاکستان تحریکِ انصاف کے جانثار ساتھی بھی دبے لفظوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ :
آئے تو یُوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھُولے تو یوں کہ کبھی آشنا نہ تھے
مجھے پچھلے دنوں مانچسٹر کے انتہائی معتبر پاکستانی بھائی ارشد صاحب ایک خوبصورت انسان ہیں ان کے گھر پر بحریہ ٹائون راولپنڈی جانے کا موقع ملا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ملک کے اہم شعبوں میں تبدیلی لانے کیلئے بہت پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایک اچھی ٹیم کا ہونا ضروری ہے ۔ بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض صاحب نے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے پاکستان میں ہائوسنگ کے شعبے میں دنیا میں اپنا نام پیدا کیا اور بہت پڑھے لکھے کلین ہینڈڈ وزیر اعظم کے پاس قابل ٹیم کے فقدان نے بہت سے اداروں کو برباد کر دیا ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت کو ہر صورت Review کرنا پڑیگا کہ ہم پشاور کے راستے میں بھائی پھیرو نہ ڈھونڈیں ۔
پاکستان کے پاس جمہوریت کیلئے فائنل رائونڈ ہے یہ وقت دوبارہ نہیںآئیگا۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ دین سے دوری نے ہمیں برباد کر دیا ہے ۔ عالمِ اسلام کوبربادی کے دہانے پر پہنچانے کی وجہ بھی اللہ کریم کے احکامات سے چشم پوشی ہے ۔ میرا یقین مجھے اس وقت سچ ثابت ہوتا نظر آتا ہے جب میں ایک اسرائیلی خوبرو حسینہ وزیر کو متحدہ عرب امارات کے وزیر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بے شرمی کی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا ہوں ۔ اور عالمِ اسلام کیلئے باعثِ شرم ہے کہ ہم ڈیڑھ ارب ہو کر بھی "ابا بیلوں"کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور 80لاکھ اسرائیلیوں سے ہماری جان چھڑائیں۔ اللہ جانتا ہے اگر ابا بیل آئیں تو اپنے کنکر اسرائیلیوں کو نہیں بلکہ مسلمانوں کو ماریں گے۔ بقولِ شاعر: 
جب مٹ جائے کہیںسے امتیازِ خیر و شر 
ظلم بغاوت و سرکشی پر مائل ہو ہر بشر 
اے ابا بیلووہاں کنکر برسنے چاہئیں 
برق گرنی چاہیے پتھر برسنے چاہئیں 
قوم کی قربانیاں دیتے دیتے بس ہو گئی ہے اب حکمرانوں کی باری ہے کہ اس لٹی پٹی قوم پر کم از کم مہنگائی کی چکی چلانا بند کردیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے جہنم سے نکال کر اب ان کو خوشحالی ،پیار محبت کی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چاہیے ۔ انھیں زندہ رہنے کا حق آئینِ پاکستان نے دیا ہے وہ اسی وقت ملے گا جب رہبروں میں رہزن نہیں رہیں گے ۔ کیونکہ آج تک کی کہانی تو بالکل یہی ہے کہ :
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا 
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے 
کاروباری حضرات کو کا داخلہ ایوانِ اقتدار میں قانون سازی کے ذریعے ہمیشہ کیلئے بند کر دیں ۔ "اگر ریاست مدینہ میں خلیفہ ء وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنا کاروبار بند کر سکتے ہیں تو ریاست ِ مدینہ بنانے کا عزم رکھنے والے کی کیبنٹ میں بیٹھ کر کچھ لوگ اپنے کاروبار کو چار چاند کیوں لگا رہے ہیں ؟"اوربقولِ ایک میواتی شاعر: 
باڑ کری ہی کھیت کو باڑ ہی کھیت کو کھائے 
راجہ ہو کے چوری کرے انصاف کون کر جائے 
جنابِ وزیر اعظم صاحب قوم کو آپ سے بہت امیدیں ہیں اور آپکی بہترین اصلاحات کے ذریعے قوم آج بھی منتظر ہے کہ :
کب ٹھہرے گا دَرد اے دِل کب رات بسر ہوگی
سُنتے تھے وہ آئیں گے سُنتے تھے سحر ہوگی 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن