قدرت نے ارض پاکستان کے شمالی خطوں کو بلندو بالا پہاڑوں ، محسوسات میں آسمانی وسعتوں تک پھیلی ہوئی برفیلی چوٹیوں ، بادلوں میں گری ہوئی بلندیوں پر واقع خوب صورت وادیوں ، اچھلتے مچلتے اور سر پٹختے پر شور دریائوں ، میلوں پھیلی جھیلوں ، دودھیا آبشاروں ، چشموں ، سرسبز و شاداب میدانوں ، گھنے جنگلوں اور پر خطر ایڈونچر بھرے راستوں سے نواز رکھا ہے اور شمالی علاقہ جات کی گیٹ وے وادی کا نام ’’ وادی کاغان ‘‘ ہے ۔ ’’ وادی کاغان کا سب سے زیادہ حسین اور دلفریب مقام ناران ہے ۔ مانسہرہ سے ناران کا فاصلہ 122کلو میٹر ہے ۔ کاغان سے ناران کی دوری صرف 23کلو میٹر ہے ۔ سطح سمندر سے 7904فٹ کی بلندی پر واقع ناران کے پر رونق مین بازار کے ہوٹل میں ہمارے میزبا ن محمد عزیر اعجا ز راجہ اور ممتاز سفر نگار و سیاح راجہ نثار احمد ٹھہرے ۔ بطور سیاح راجہ نثار احمد کااختصاص یہ ہے کہ گزشتہ چار دھائی سے اپنی مددآپ کے تحت سیر و سیاحت کے طور پر ملک بھر چپہ چپہ چھان مارا اور پھر سیاحت کے دالدادوں کے لیے کئی کتب تحریر کر کے ممتاز سفر نگار مستنصر حسین تارڑ کے قبیل کے اہم لکھاریوں میں جگہ بنا لی ۔ ممتاز سیاح ، کالم نگار ، ادیب و خطیب محمد توفیق، اسلامی خطاط محمد اشفاق ہاشمی اور انڈس ٹور کلب کے چیئر مین راجہ محمد اعجاز گوہر اور راقم راجہ نثار احمد کی راہنمائی میں ناران سے 10کلومیٹر سطح سمندر سے 10500فٹ کی بلندی پر واقع گہرے نیلے سبز پانی سے مزین پیالہ نما جھیل ’’ سیف الملوک ‘‘ پہنچے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ چاندنی راتوں میں یہاں پریاں اترتی
ہیں ۔ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کے عشق کی داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی ایڈونچز بھرے جیپ کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد پہاڑوں میں گھری ہو ئی دیو مالا ئی اور طلسماتی جھیل کے نیلگوںپانی اور ارد گرد کے خوش کن مناظرنے اپنے سحر میں جھکڑ لیا ۔ ملکہ پر بت (5291)میٹر بلندبرف سے ڈھکی اور آسمان کو چھوتی چوٹیوں کے سامنے جھیل سیف الملوک کے بلند ترین سیاحتی مقام پر راجہ نثار احمد نے اپنی 40سالہ نگرنگر کی چھانی خاک کا حاصل جنت نظیر گوشوں کی حقیقی کہانیو ں پر مشتمل اپنی مرتب کردہ ٹورسٹ گائیڈ’’ عکس پاکستان‘‘ کا خوبصورت قلمی تحفہ پیش کیا ۔ یقینا کتاب سے بڑا تحفہ اور کیا ہوسکتا ہے اور پھر اس مقام پر ؟ ذوق سیاحت کے حامل لوگوں کے لیے راجہ نثار احمد نے پاکستان کے برف پوش چوٹیوں ، سحر انگیز وادیوں ، طویل ترین گلیشیر ز ، قدیم ترین تاریخی ورثہ کے حامل ملنسار اور مہمان نواز لوگوں کی دھرتی پاکستان کا امیج جس طرح سے عکس پاکستان میں قلم بند کیا ہے یہ ان کے قلم و نظر کا کمال ہے کہ فطری مناظر ، دریا ، جنگل ، ندی نالے ، گلیشیر ز ، دھمکتے برف پوش پہاڑ ،حیران کن صحرا اور زرخیز میدانی علاقوں کی جو منظر کشی کی ہے وہ حقیقت کے بالکل قریب تر ہے ۔ عکس پاکستان میں بے مثل اورا چھوتی تصاویر کو دیکھ کر دل نہ صرف مچلتا ہے بلکہ راجہ نثار احمد نے نیلی جھیلوں ، شفاف ندیوں ، وسیع و عریض سر سبز چراگاہوں اور پس منظر میں برف کی سفیدی میں ملفوف بلند و بالا چوٹیوں اور پھر ان کے درمیان پھیلی ہفت رنگ گل وگلزار و ادیوں زینہ بہ زینہ الپائن پھولو ں سے سجی پگڈنڈیوںکی جو منظر کشی کی ہے اور پھر ان پہاڑوں کی خوبصورتیوں کو تحریر و تصاویر کے ذریعے 100صفحات ہی نہیں بلکہ ’’ عکس پاکستان ‘‘ کے کئی ہزار صفحات لکھ ڈالے ہیں کیونکہ تصاویر کو دیکھ کر یہ انگریزی محاورہ سچ لگتا ہے A Picture is worth a thousand words۔ عکس پاکستان کے مطالعہ کے بعد فطرت کے مناظر سے محبت کرنے والا یقینا راجہ نثار احمد کی کاوشوں کا اسیر ہو جاتا ہے ۔ عکس پاکستان سیاحت کی جانب رغبت دلانے میں خوبصورت گائیڈ لائین دیتی ہے اور قاری کو پتہ چلتا ہے ہمارا ملک ایسے جغرافیائی خدو خال کا حامل جو سیاحت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے پاکستان کے بلند ترین پہاڑوں کے درمیان پھیلی یہ خوبصورت وادیاں سیاحت کے دالدادہ لوگوں کے لیے اپنے دامن میں بہت کچھ چھپائے ہوئے ہیں ۔ ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش جیسے طلسمی ہائے کوہ ، سیاحوں ، کوئہ نووردوں اور پرانی تہذیب و ثقافت کے شوقین اور آوارہ گردوں کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہاں فطری وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر کی کمی نہیں جن میں بلند و بالا برف پو ش پہاڑ اور ان پہاڑوں کے قدموں میں بچھی گلیشیائی جھیلیں ، گنگناتی آبشاریں ، گھنے جنگلات او ران کے درمیان نیلے پانیوں کی زمرد جھیلیں ، منہ زور دھارے اور موسیقی بکھیرتی ندیاں شامل ہیں ۔ عکس پاکستان عام سیاحوں کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی بلکہ غیر ملی سیاح بھی اس سے استفادہ کر سکیں گے ۔ کیونکہ اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی تحریر موجود ہے ۔ اس کتاب میں 70سے زاید وادیوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسلا ، واہ گارڈن ، کٹاس راج ، کھیوڑہ اور رام کوٹ جیسے تاریخی مقامات کے بارے میں مصنف نے لکھ کر ان مقامات تک رسائی آسان بنا دی ہے ۔ عکس پاکستان ایک خوبصورت اور انمول تحفہ ہے ۔
اس دعا کے ساتھ مصنف کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ سفر رکے گا نہیں بلکہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ !