یوم پاکستان سے چند روز قبل مختلف چینلز پر بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒکی آواز میں ’’ہم آزاد ہیں‘‘ کے کلمات دلوں کو اطمینان کی دولت تقسیم کرتے رہے۔ اس آزادی اور ان آزاد فضاؤں کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جس قدر قربانیاں دیں ان کے تصور سے ہی جسم کانپ جاتا ہے۔ مرحوم محمد خان نقشبندی کہا کرتے تھے کہ جب وہ جموں سے مہاجر قافلے کے ساتھ ہجرت کررہے تھے تو راستہ میں قافلے پر ہندوں اور سکھوں نے ’’بلوہ‘‘ کردیا۔ وحشیوں کے اس حملے میں وہ اپنی ماں اور بہن سے بچھڑ گئے، خان صاحب نے 90برس کی عمر پائی ان کی آنکھیں آخری سانس تک اپنی والدہ اور بہن کی راہ تکتی رہیں مگر موت نے مہلت نہ دی۔ ان جیسے عظیم المرتبت پاکستانیوں سے پوچھو کہ آزادی اور آزاد فضاء رب جلیل کی کتنی بڑی نعمت ہے! اس یوم پاکستان پر سڑکوں ، شاہراہوں اور گلی کوچوں میں نوجوان نسل کو باجے بجاتے اور شورو غوغا کرتے دیکھا تو دل خون کے آنسو رونے لگ۔ ہم اپنے بچپن سے 14 اگست کو پرچم لہرانے اور شیرنی تقسیم کرنے کی خوبصورت روایات میں بندھا دیکھتے تھے۔ یہ باجوں کا شور اور ہلڑ بازی کے کانٹے کہاں سے آگئے؟
اسی یوم آزادی پر مینار پاکستان کے سائے تلے عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر کا واقعہ ہوا۔ ہفتہ کی شام گریٹر اقبال پارک میں جو کچھ ہوا‘ کس نے کیا؟ کس نے کرایا‘ وائرل کرانے والے کون تھے! افغانستان کی طرف سے فاتحانہ خبروں کو روک کر اس واقعہ کو سامنے لانے اور اسے زیر بحث لانے اور پھر پاکستانی سماج کے رویے سے جوڑنے والے کون سے عناصر ہیں۔ یہ بحث طلب امور ہیں۔ ہم یہ بتادیں کہ مغرب اور اسلام دشمن عناصر ایک عرصے
سے پاکستانی معاشرے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ایٹمی پاکستان کو خطرہ سمجھنے والے اسلام دشمن پاکستانی سماج میں تقب لگا کر اسے ایسا روشن خیال معاشرہ پینٹ کرنے کے درپے ہیں جہاں نور مقدم اور عائشہ اکرم جیسے واقعات معمول کا حصہ بن جائیں۔عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر نے پہلے سوشل میڈیا پر اقبال پارک اپنی آمد کی اطلاع دی اور اپنے فین کو بھی شرکت کی کھلی دعوت دے ڈالی جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس کے چاہنے والوں سمیت سینکڑوں لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں بھی کسی ایک بندے کو یہ جرات نہیں ہو تی کہ وہ کسی اداکارہ سے حرکات کرے ۔ایک بات تو طے ہے کہ مذکورہ ٹک ٹاکرصرف ایک کیمرہ مین کے ساتھ تو وہاں نہیں گئی ہوگی ۔یقیناً اس کے ساتھ اپنی ٹیم کے ہوں گے ۔حالات و واقعات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ لڑکی کوئی معصوم سی بچی تو تھی نہیں اور نہ ہی وہ پاکستانیوں کے ذہن سے ناآشنا تھی ۔بس کچھ اپنوں کے ساتھ تماش بین بھی آ گئے جنہوں نے اس ڈرامے کو بڑھاوا دیا ۔سوشل میڈیا پر واقعہ کی وڈیوزاور پوسٹس تسلسل کے ساتھ وائرل کی جانے لگی ۔لوگوں نے وڈیوز تو بنائیں لیکن موقع پر خاتون کو اس ظلم سے بچانے والا کوئی ایک بھی’’ مرد مجاہد‘‘ سامنے نہیں آیا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شائد یہ سارا خواجہ سراؤں کا ہجوم تھا ’’ٹک ٹاکر گرل ‘‘کاسیکورٹی کے بغیر یوں وڈیوز بنانے کا عمل سراسر بے وقوفی ہے ، واقعہ کوکسی طور قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ٹک ٹاکر بی بی کو یہ بات اچھے سے معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کا پولیس سسٹم کسی بھی مظلوم کو انصاف نہیں دے سکتا ۔اوّل تو پولیس ہی کیس بگاڑدیتی ہے، رہی سہی کسر وکلاء صاحبان نے نکال دی ۔اس واقعہ میں ملوث چالیس کے قریب لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن کسی ایک بھی فرد کو اگر سزا مل جائے تو یہ کسی کرامت سے کم نہیں ہو گی کیونکہ جرم کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ ہجوم میں ہونے والی واردات میں صرف ایک نکتے پر کسی بھی ملزم کو بّری کروایا جا سکتا ہے کہ جائے وقوعہ پر چونکہ لوگوں کا جم غفیر تھا ۔اس لئے کسی بھی ایک شخص یا اشخاص کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ جرم اسی سے سرزد ہوا ہے ۔ٹک ٹاکر کیس میں مدعیا نے 400نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ کٹوایا لیکن بعد ازاں کیس ختم کرنے کی درخواست دینے اورتحقیقاتی رپورٹ میں خاتون کا ازخود رچایا گیا سارا ڈرامہ بھی بے نقاب ہونے کی اطلاعات ہیں ۔
مجھے اسلام آباد اور لاہور کے واقعات میں مادرپدر آزادی کے ذمہ دار والدین زیادہ نظر آرہے ہیں۔ یہ وہی مادرپدر آزادی کے نمونے ہیں جس میں اولاد والدین ‘ خاندان اور معاشرے کی عزت کا جنازہ نکالنے کے ساتھ اپنی روایات کی فخریہ پامالی کرتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد کی مارکیٹوں میں خود عیسائی اور سکھ عورتوں کو آذان کے احترام میں سروں کو ڈوپٹے سے ڈھانپتے دیکھا ہے۔ یہ ہے پاکستان کی اخلاقی روایات کا اصل چہرہ… ہم کس طرف جارہے ہیں ہے ۔کوئی ہے جو معاشرے کے بگاڑ میں حصہ ڈالنے والوں کی پیش قدمی روکے…! ابھی چنگ جی رکشہ پر خواتین سے چھیڑ چھاڑ کی ایک اور وڈیو وائرل ہورہی ہے ، ہم حکومت ‘ سیاست اور سماج کے’’ بڑوں‘‘ سے دست بدست عرض گزار ہیں کہ خدارا’’ بیدار‘‘ہوجائیں۔ یوتھ سرپرستی کریں۔ نوجوانوں کو روزگار کے گلاب دیں ورنہ پانی سر سے اوپر چلا جائے گا۔ چینی لیڈر ماؤزے تنگ کہا کرتے تھے کہ بے روزگار نوجوان ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے!! شہباز شریف ٹھیک کہتے ہیں کہ ہم نے معاشرے کوکس ڈگر پر ڈال رہے ہیں۔ امام جعفر صادقؓ سے تبلیغ پر جانے والی ایک ٹیم کے قائد نے کہا کہ حضرت ؓکچھ نصحیت فرما دیں آپ نے جواب دیا کہ کوشش کریں تبلیغ کے دوران زبان کا استعمال کم سے کم ہو( یعنی تمہارا کردار ہی تبلیغ کا عکس اور مظہر بنے) یہ ہے اسلام کا روشن کردار اور یہ ہے دینی روایات کا خوبصورت چہرہ)