پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے ایک گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا پڑے گی ورنہ ایک شخص اداروں کو اپنی ہوس کا شکار بناتا رہے گا۔
قطع نظر اس بات کے کہ ”ایک شخص“ سے ان کی کیا مراد ہے، ان کی کہی گئی بات بالکل درست ہے کہ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا پڑے گی۔ لیکن مسئلہ اس بیج یہ آن پڑا ہے کہ رٹ سے پہلے حکومت کا قائم ہونا ضروری ہے۔ حکومت ہو گی، رٹ کا سوال تبھی اٹھے گا۔ چنانچہ زرداری صاحب سے سوال ہے کہ کیا حکومت قائم ہو چکی؟۔ اگر ہو چکی تو کہاں ہے؟۔ نظر کیوں نہیں آ رہی؟
وفاقی حکومت کا سب سے بڑا میدان معیشت کا ہوتا ہے، دیکھ لو خالی پڑا ہے، مہنگائی کے بگولے آگ برساتے پھر رہے ہیں، ناچ رہے ہیں، گھوم رہے ہیں، گاھے بیلے ڈانس کرتے ہیں، گاہے جھومر ناچتے اور کبھی بھنگڑا ڈالتے پھرتے ہیں۔
زرداری صاحب پہلے حکومت قائم کریں یا کروائیں، پھر رٹ کا سوال اٹھائیں۔
....................
خیر کہنے کی حد تک تو حکومت ہے اور زرداری صاحب کو ”جزوی سچا“ کہا جا سکتا ہے لیکن اس کے کارہائے خیر بتاتے ہیں کہ یہ دکھائی دینے کو تو حکومت ہی ہے، اصل میں کچھ اور ہے۔
تازہ اعلان ملاحظہ فرمائیے اور اس کے ساتھ ہی، اس روز شائع ہونے والی دوسری خبر بھی۔ اعلان یہ ہے کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے اگلے مہینے فیول سرچارج معاف۔
دل کے خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ، جب معاف ہو گا تب ہو گا لیکن، ساتھ کی خبر یہ ہے کہ ماہانہ کے علاوہ ایک سہ ماہی سرچارج بھی لگے گا جس کی مالیت /94 ارب ہو گی۔ اب بتائیے، اس دل خوش کن اعلان کی حقیقت کا سراغ کہاں سے لگائیے گا؟ خبر تو ایک اور بھی ہے کہ سرچارج کی محدود وصولی روکنے کا حکم وزیر اعظم نے کسی متعلقہ ادارے سے پوچھے بغیر دیا۔ مطلب یہ دل خوش کرنے والا اعلان بھی کچھ دنوں کا مہمان ہے۔
ایک نواب نے رقاصہ سے مجرا کرایا۔ اور اسے طلائی ہار دینے کا اعلان کیا۔ بعدازاں ہار دینے سے مکر گیا۔ رقاصہ نے فریاد کی تو فرمایا، تم نے ناچ دکھا کر میرا دل خوش کیا، میں نے ہار دکھا کر تمہارا دل خوش کیا۔ دونوں کے دل خوش ہو گئے، حساب برابر۔
........................
ایسا گمان کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ اس دل خوش کن اعلان پر عمل نہیں ہونے والا۔ لیکن مان لیجیے کہ بالفرض ، یعنی کہ بالفرض محال، یعنی کہ بالفرض محال در محال ایسا ہو ہی جاتا ہے اور یہ 200 یونٹ والا طبقہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ سے بھی بچ نکلتا ہے، تو اس لوئر مڈل اور مڈل آف دی مڈل کلاس طبقے کا کیا قصور ہے کہ 80 ہزار تنخواہ یا آمدنی والے کو بجلی کا بل 40 سے 50 ہزار ادا کرنا پڑتا ہے، وہ باقی 30 ہزار کا کیا کرے؟ گیس کا بل بھی اس نے دینا ہے جو اس سرما میں اور بھی بڑھ جائے گا۔ آٹا دال گھی پہلے سے تین گنا ریٹ کے ہو گئے ہیں، بچوں کی فیس کپڑے کہاں سے لائے؟۔ سکول سے اٹھا لے، روٹی تو پھر بھی دینا ہی پڑے گی۔ بیمار ہو جائے تو کیا کرے، کہیں شادی غمی میں آنا جانا ہو تو کرایہ کہاں سے لائے۔
نواز شریف تھے تو بجلی 8 روپے یونٹ تھی، ریاست مدینہ والے نے 32 روپے کر دی اور اعلیٰ خدمت گار آئے تو 60 کر دی، ستر روپے یونٹ اگلے مہینے ہونے والی ہے۔ شہباز کا لفظ تو ہم استعمال نہیں کریں گے کہ حدِ ادب والی بات ہو جائے گی، چلئے مفتاح کا نام اس مصرع میں ڈال دیتے ہیں کہ مفتاح تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
........................
دریں اثنا ستم ظریفی یہ ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت کے مضبوط ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ کل ہی بنی گالہ سوشل اینڈ الیکٹرانک میڈیا سیل کے ایک اینکر پرسن بتا رہے تھے کہ شہباز حکومت نہ صرف قائم رہے گی بلکہ اگلے وزیر اعظم بھی شہباز ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر انہوں نے شدید غم و غصے اور شدید ترین روحونیاتی صدمے کے ساتھ سنائی۔
جب کسی بات کا ڈر نہ رہے تو ”ترقی“ کا سفر اور بھی تیز ہو جاتا ہے۔ اب تو امید کرنی چاہیے کہ بجلی کا یونٹ سو روپے سے اوپر ہی جائے گا، رفتہ رفتہ ڈالر کے ہم پلّہ ہو جائے گا۔
”ڈر“ والے گھر نہیں
ہم کو کسی کا ڈر نہیں........سیاںبھئے کوتوال کی بات تو پرانی ہو گئی۔
....................
کسی کا بیان چھپا ہے کہ جنوبی پنجاب بری طرح سیلاب میں غرق ہو کر برباد ہو گیا ہے۔ پانی میں لاشیں اور ملبے ساتھ ساتھ تیر رہے ہیں جو بچ گئے ہیں، بے یارومددگار ہیں، بھوکے اور پیاسے ہیں۔ زندگی سے مایوس اور دکھوں میں ڈوب گئے ہیں۔ ایسے میں پرویز الٰہی صاحب کہ وزیر اعلیٰ کہاں ہیں؟ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے۔
دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟ دے تو رہے ہیں۔ کئی بار انہیں لاہور میں دیکھا گیا ہے اور متعدد بار درگاہِ بنی گالہ میں۔ دکھائی دینا اور کیا ہوتا ہے۔
2017ءمیں انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب کے حقوق کا مسئلہ سب سے بڑا نہیں تو سب سے بڑے دو تین مسئلوں میں سے ایک تھا۔ ہر طرف جنوبی پنجاب جنوبی پنجاب ہو رہا تھا۔ جنوبی پنجاب کے حقوق غصب کرنے والی حکومت آخر ختم ہوئی اور جنوبی پنجاب کے علمبردار برسراقتدار آ گئے۔ اور ا س کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب، جنوبی پنجاب کی تکرار بھی ختم ہوئی۔ کامل ساڑھے تین سال اس کا نام تک کسی نے نہ لیا نہ چھاپا۔
لگتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا ، جو تھوڑا بہت رہ گیا تھا، وہ اس سیلاب بلا میں تحلیل ہو گیا۔ سو اب اس حل شدہ مسئلے کا گڑا مردہ اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پرویز الٰہی قبلہ لاہور میں بھی نظر آتے ہیں، بنی گالہ میں بھی، اتنا کافی نہیں کیا؟
....................
ایک تو مجسٹریٹ کو دھمکی والی تقریر، اور اس سے بڑھ کر فوج میں بغاوت ابھارنے والا پروگرام، ہر دو معاملات میں عمران خان پر مقدمے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ فرد مقدمہ میں کچھ سنگت والوں کے نام بھی آ رہے ہیں۔
جو اب آں غزل کے طور پر پختونخواہ حکومت میں مولانا فضل الرحمن، شہباز نواز وغیرہ پر مقدمے درج ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مقدمہ نہیں، جواب آں غزل ہے۔ مقدمہ برائے مقدمہ ہوتا تو اتنے سال سے تبدیلی سرکار صوبے پر نافذ ہے، کارروائی کب کی ہو چکی ہوتی۔
فرض کیجئے مولانا پکڑ لیے جاتے ہیں تو سارا صوبہ پرتشد ہنگاموں، جلوسوں اور دھرنوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ جام ہو کر رہ جائیگا پھر کیا ہو گا۔؟
فرض کیجئے، عمران خان پکڑ لیے جاتے ہیں تو لاہور کے لبرٹی چوک اور اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں شبینہ ہجوم ہوں گے، احتجاجی دھمال ہوں گے، روشنیاں ہوں گی، سریلے گلوں والے برسرفن ہوں گے، بھڑک دار لباسوں کی چمک، صحت مند چہروں کی چمک ہو گی اور یہ لبرٹی چوک، ایف نائن چوک جام ہو کر رہ جائیں گے۔ پھر کیا ہو گا۔