شرلی بے بنیاد دھڑام سے کمرے میں داخل ہوا ،صوفے پر گرا، اور ہانپنے لگا۔یہ تشویش کی بات تھی ۔ستم ظریف تو گبھرا ہی گیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے ۔کیا ہوا شرلی خیریت تو ہے؟سانس درست ہونے پر شرلی نے اردگرد دیکھا ، اس کی آنکھیں اپنی قدرتی استعداد سے دو گنا زیادہ کھلی ہوئی تھیں ۔ستم ظریف پاس بیٹھا منتظر تھا کہ شرلی کچھ بولے ۔۔شرلی بدستور آنکھیں اور منہ کھول کر ادھر اودھر دیکھ رہا تھا ۔ستم ظریف نے میری طرف اس انداز سے دیکھا گویا مجھے صورت حال میں مداخلت کی دعوت دے رہا ہو۔میں نے شرلی کو آواز دی ۔شرلی صاحب شرلی صاحب۔۔۔۔اوئے شرلی۔ شرلی جیسے نیند سے بیدار ہوا ہو ، جی ۔۔ہاں جی۔۔شرلی نے میری طرف دیکھا ۔شرلی منہ بند کرو اور آنکھیں بھی ٹھیک کرو ۔اور یہ بتاؤ کہ ہوا کیا ہے؟شرلی کہنے لگا کہ شکر ہے کہ میں سوڈان سے ایتھوپیا جانے والے بوئنگ 737 کی فلائٹ ای ٹی343 میں سوار نہیں تھا ،ورنہ جو کچھ ہوا ،میں تو مر ہی جاتا۔تم پاکستان میں بیٹھ کر سوڈان سے ایتھوپیا کیوں جانے والے تھے؟ کہنے لگا یہ میرے مستقبل کے پروگراموں کا ایک لازمی حصہ ہے۔ پر اب میں ایتھوپین ائر لائن پر سفر نہیں کروں گا۔ یہ تم ایک مفروضہ پروگرام کا قیاس کرکے حواس باختہ ہو رہے تھے۔؟ بھئی دیکھو شرلی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دیکھو کیا تم نے وہ خبر نہیں پڑھی؟ وہ جہازمیں دونوں پائلٹس کے دوران پرواز سو جانے والی؟ دوران پرواز کون سوتا ہے ؟ایتھوپین ائر لائنز کے پائلٹ۔یہ اخباری خبر ہے ؟ جی ہاں مگر مستند ہے جس کے مطابق ایتھوپین ایئرلائنز کی ایک فلائٹ ،جو سوڈان سے ایتھوپیا جارہی تھی، تو اس رواں دواں پرواز کے دونوں پائلٹ یعنی اصل پائلٹ اور معاون پائلٹ دوران پرواز سو گئے۔ دونوں پائلٹ اپنی مخصوص نشستوں پر بیٹھے مخالف سمتوں میں سر ڈھلکا کر گہری نیند کے مزے لیتے رہے ۔بوئینگ 737 کو چلانے کے لیے چونکہ پیڈل نہیں گھمانے پڑتے ،نہ ہی چپو چلانے پڑتے ہیں ، لہذا
جہاز سینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا رہا۔پائلٹ اور معاون پائلٹ کے محو خواب ہونے کی وجہ سے یہ فلائٹ معمول کے مطابق لینڈنگ نہ کر سکی اور رن وے کے قریب پہنچ کر اپنی بلندی کم کرنے کی بجائے سینتیس ہزار فٹ کی بلندی برقرار رکھتے ہوئے جہاز آگے نکل گیا۔۔ جب ہوائی جہاز نے اپنی اونچائی برقرار رکھی تو ایئر ٹریفک کنٹرول نے الارم بجا دیا۔ کنٹرول ٹاور نے پائلٹ اور معاون پائلٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش لیکن ناکام رہے۔ رپورٹس کے مطابق اپنی مطلوبہ منزل کے رن وے کو پیچھے چھوڑ دینے کے بعد بوئنگ کا آٹو پائلٹ نظام متحرک ہوگیا اور اس نے الارم بجا دیا، جس سے دونوں پائلٹس اچانک بیدار ہو گئے۔ اس کیبعد دونوں خوابیدہ پائیلٹوں کے اوسان بحال ہوئے تو انہوں نے کاک پٹ میں اپنی نششتوں کے اطراف اور اوپر لگے ان گنت میٹرز کو دیکھنا اور ضروری بٹن دبانے شروع کیے تو تقریباً پچیس منٹس کے بعد ہوائی جہاز باحفاظت اپنے رن وے پر اتر گیا ۔
اچھا شرلی دیکھو یہ خبر تو دلچسپ ہے لیکن تم جس انداز سے کمرے میں داخل ہوئے ہو اور جس طرح صوفے پر گرے ہو ،وہ کوئی مناسب بات نہیں تھی۔
دیکھو شرلی یہ خبر دنیا کے لیے چاہے کتنی عجیب ،کتنی بھی تشویش ناک کیوں نہ ہو ،ہم پاکستانیوں کے لیے اس میں کچھ بھی نیا یا انوکھا نہیں ہے ۔وہ کیسے؟ شرلی نے پوچھاپہلے تم یہ بتاو شرلی کہ کیا تم ایک محب وطن پاکستانی ہو؟ہاں ہوں محب وطن پاکستانی ،کیونکہ میرے پاس فی الحال دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔اگر تم ایک سچے اور محب وطن پاکستانی ہو تو تمہیں علم ہونا چاہیئے کہ ہمارے پیارے ملک کو چلانے والے پائلٹس عرصہ ہوا ،گہری نیند سو رہے ہیں ۔ہمارے جہاز کی بلندی بھی سینتیس ہزار فٹ نہیں ہے ۔ اس میں کوئی آٹو پائلٹ سسٹم بھی نہیں ہے ۔ یہاں تک شک پایا جاتا ہے کہ اس کے پائلٹس عارضی طور پر سو رہے ہیں یا ابدی نیند۔؟ لیکن ملک ہے کہ جیسے تیسے چل ہی رہا ہے ۔ تو پھر اس کے مسافروں یعنی شہریوں کا کیا ہو گا؟ ستم ظریف نے پوچھا
ہونا کیا ہے ستم ظریف تم نے شائد توجہ نہیں دی ،اسے مملکت خداد بھی کہا جاتا ہے ۔یہ مملکت خدا نے دی ہے تو پھر وہی اس کو چلانے کی ذمہ داری بھی نبھائے ۔اب دیکھ لو حالیہ بارشوں نے بلوچستان میں کیسی تباہی پھیلائی ہے ۔جنوبی پنجاب میں سیلاب کے تند خو ریلوں نے کیسی غارت گری کی ہے ۔سیکڑوں دیہات ، قصبے ، فصلیں ، پالتو جانور سب زیر آب۔ اس مصیبت میں تم نے اپنے کسی پائلٹ کو بیدار یا پریشان دیکھا ہے ؟ بے چارے غریب اور بے بس بلوچ پانی کی تندخو لہروں کا شکار ہوئے ،بہت سے جان سے بھی گئے ، کچھ فرق پڑا؟ جنوبی پنجاب سے مراد صرف ملتان یا بہاولپور تو نہیں، تونسہ ، ڈی جی خان ، چھوٹے قصبے ، گاؤں سب کو پانی بہا کر لے گیا ہے،جو بچ گئے وہ تباہ حال ، جو منتخب نمائندے تھے وہ اسے اللہ کا غذاب قرار دے کر ایک طرف ہوگیے۔اب اللہ سے کون لڑے ؟ ایتھوپین ائر لائنز کے بوئینگ 737 میں تو آٹو پائلٹ سسٹم لگا ہوا تھا۔اس ملک میں کوئی آٹو پائلٹ سسٹم نہیں ، وزیر اعظم سمیت ساری کابینہ عدم پتہ اور مفقود الخبر ہے ، عمران خان اینڈ کمپنی شہباز گل کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام پر مصر ہیں ۔جلوس نکال رہے ہیں ، شور مچا رہے ہیں۔انکے ذہن میں جو ملک بستا ہے اس میں کسی جنوبی پنجاب یا کسی بلوچستان کی گنجائش کوئی نظر نہیں آتی۔میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ جنوبی پنجاب کے چھوٹے شہروں ، قصبوں، قریوں ، ، اور دیہات میں بھی انسان بستے ہیں ، سچ مانیں ، اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بھی سچے پاکستانی ہیں ،سرائیکی بولتے ہیں تو کیا ہوا ، وہ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے کہ اسلام آباد ، لاہور کے لوگ ،کراچی اس لیے نہیں لکھا کہ وہ خود پانی میں ڈبکیاں لگا رہا ہے ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کا حال اور ملال ایک جیسا ہے ۔میرا مطالبہ ہے کہ این ڈی ایم اے کے چیئرمین سمیت تمام تر عملے کو فاضل پور کی کسی پانی میں ڈوبی سڑک پر بٹھا دیا جائے اور حکم دیا جائے کہ اب اپنی ڈیوٹی ادا کرو ۔ میری جنوبی پنجاب کے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کر کے خود کو محفوظ بنائیں اور قسم کھا لیں کہ آئیندہ کسی ان کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب نہیں کرنا۔خود اپنے میں سے کسی بی اے ، ایم اے پاس ،کسی نوجوان وکیل ،کسی اتھرے شاعر کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے روائتی سیاست کے دبستان گورکنی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیں۔
شرلی بے بنیاد کے لیے تجویز یہ ہے کہ وہ سوڈان سے ایتھوپیا جانے والے بوئنگ 737 کی فلائٹ ای ٹی343 میں سواری کے خواب دیکھنا چھوڑ دے ،اور نہ ہی اپنے ملک کے خواب غفلت میں پڑے حکمرانوں کو ایتھوپین ائر لائن کے پائلٹس جیسا قیاس کرے ، ایتھوپین پائلٹس نے جہاز کے آٹو پائلٹ سسٹم کے بیدار ہونے پر اپنے جہاز کو بہ حفاظت اتار لیا تھا۔چونکہ ہمارے ملک میں کوئی آٹو پائلٹ سسٹم نہیں ہے۔اسی لیے ہمارے ملک کے غافل اپنے جہاز کو بچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ میری یہ بات سن کر شرلی بے بنیاد کے منہ کے ساتھ آنکھیں بھی اپنی قدرتی استعداد سے زیادہ کھل گئیں، اور اس نے پھر سے ادھر اودھر دیکھنا شروع کر دیا ۔