سابق وزیراعظم عمران خان کا کہا تھا ’’ اپنے دورِ اقتدار میںانہوں نے دو بڑی غلطیاں کیں‘‘ ایک توسکندر سلطان راجا کو چیف الیکشن کمشنر لگایا اور دوسری وہ فی الحال نہیں بتائیں گے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ مجھ میں دو بڑی خاصیتیں ہیں ۔کون کونسی؟ دوست نے پوچھا، ’’ایک تو یہ کہ میری یاداشت بہت اچھی ہے اور دوسری میں بھول گیا۔ ‘‘ خانِ اعظم آپ نے دو نہیں دو سو غلطیاں کی ہیں۔ اور آپ بتائیں یا نہ بتائیں دنیا جانتی ہے۔ نہیں جانتے تو پاکستان کے عوام… کیونکہ انہیں گزشتہ چار سال میں معلومات تک رسائی کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ انہیں نہیں معلوم اس دوران فرح خان کس طرح ’’ ان‘‘ رہیں۔ آپ نے پچیس ہزار ارب کا جو قرضہ لیا وہ کہاں خرچ ہوا؟ غیر ملکی سربراہان سے تحفے میں ملی ہوئی قیمتی گھڑیاں کہاں اور کتنے میں فروخت ہوئیں؟ 2018 میں ن لیگ اور دوسری جماعتوں کے بندوں کو کس طرح توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا؟ بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے الیکشن کمیشن میں دائر کیے جانے والے فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کو 8سال کیوں لٹکایا گیا اور اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی چیئرمین الیکشن کمیشن کی تبدیلی کا مطالبہ کیوں کیا جانے لگا۔ علیٰ ہذا لقیاس۔یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب پی ٹی آئی اور خصوصاً عمران خان کے ذمے ہیں۔ بشرطیکہ وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھیں۔ وہ تو صرف سوال کرنا جانتے ہیں۔جواب دینا نہیں۔ جبکہ وہ ریاستِ مدینہ کے دعویدار ہیں۔ ریاست مدینہ میں تو ایک عام آدمی نے خلیفہ وقت (حضرت عمرؓ) پراعتراض کر دیا تھا کہ مالِ غنیمت میں ملے ہوئے کپڑے سے میرا کرتہ تو نہیں بن سکا آپ نے کیسے بنا لیا؟ جس کے جواب میں معترض کو یہ وضاحت دے کر مطمئن کیا گیا کہ مجھے اس کے لیے اضافی کپڑا میرے بیٹے نے دیا ہے۔ آپ سے توشہ خانے سے اونے پونے حاصل کیے گئے تحائف کے بارے پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ یہ تحائف مجھے ملے تھے اور ان پر میرا حق تھا۔ جنابِ من! یہ تحائف آپ کو بحیثیت وزیر اعظم ملے تھے اور یہ قوم کی ملکیت ہیں۔ ریاست مدینہ میں تو حضرت علیؓ دورانِ جنگ مرحب کو گرا کر اس کے سینے پر سوار ہیں کہ اچانک وہ آپ کے چہرے پر تھوک دیتا ہے۔ آپ فوراً اسے چھوڑ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اب میں نے اسے مار دیا تو یہ ذاتی انتقام سمجھا جائے گا۔ جبکہ آپ نے اپنے چار سالہ دور میں احتساب کے نام پر اپنے مخالفین سے انتقام لینے کے سوا کوئی کام ہی نہیں کیا۔ اب آئیے خان صاحب کی غلطیوں کی طرف 2018ء کے الیکشن میں پانچ کروڑ سے زائد ڈالے گئے ووٹ میں سے پی ٹی آئی کو ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ ملے تھے۔ گویا تقریباً ایک تہائی مگر عمران خان اسے پوری قوم کا مینڈیٹ کلیم کر کے اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اور سارے ریاستی اداروں کو آگے لگا لیا۔ کسی کو دھمکا کر اور کسی کو تڑیاں لگا کر سب کو اپنے ساتھ ایک پیج پر لے آئے اور پھر اپنے دورِ اقتدار میں انہیں خوب استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب معاملات ان اداروں کی برداشت سے باہر ہو گئے تو انہوں نے سابق وزیر اعظم کی بغلوں سے بیساکھیاں نکال لیںاور خان دھڑام سے گر پڑے۔
دوسری بڑی غلطی یکطرفہ احتساب ہے جس کے نام پر انہوں نے انتقام کو فروغ دیا۔ عوام نے انہیں چوروں اور لٹیروں کی بلا امتیاز سرکوبی کے نعرے پر ووٹ دیئے تھے لیکن انہوں نے ان میں سے صرف ان لوگوں کو پکڑا جو ان کی ’’ سیاسی بیعت‘‘ سے منحرف ہو گئے تھے۔ جنہوں نے پی ٹی آئی کا پٹہ گلے میں ڈال لیا وہ صاف شفاف گردانے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاسی اختلاف کو دشمنی کا درجہ دے دیا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو نہ صرف غدار قرار دیا بلکہ انہیں غلیظ ناموں سے پکارنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ خان صاحب کے اس طرز ِتخاطب نے پوری قوم خصوصاً نوجوان نسل کی اخلاقیات کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اس کے مظاہر روزانہ سوشل میڈیا پر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔احسان فراموشی خان کی ایک اور ’’صفت‘‘ بتائی جاتی ہے۔ انہوں نے ہر اس شخص کو ایذا پہنچائی جس نے ان پر کوئی احسان کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی اپنی پارٹی کے کئی ارکان کی مثالیں موجود ہیں۔ میاں نواز شریف نے انہیں کینسر ہسپتال کیلئے پلاٹ دیا۔2013ئ کے الیکشن میں اگر نواز شریف چاہتے تو بڑی آسانی سے انہیں کے پی میں حکومت بنانے سے روک سکتے تھے ( مولانا فضل الرحمن نے اس کیلئے نواز شریف کو ممکنہ تجاویز بھی پیش کر دی تھیں) مگر میاں صاحب نے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خان صاحب کو فری ہینڈ دے دیا جبکہ عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ کیا کیا؟اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس لانے اور رانا ثناء اللہ پر منشیات کا مقدمہ بنانے کی غلطیوں کا اعتراف ان کے وزراء کر ہی چکے ہیں تو ۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاوں
آخر میں اس حقیقت کا ذکر کہ عمران خان نے افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پرویز مشرف کے امریکہ کا سہولت کار بننے کے فیصلے پر کہا تھا کہ صدر کے پاس اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ نیز انہوں (عمران خان) نے صدارتی ریفرنڈ م میں نہ صرف انہیں ووٹ دیا بلکہ ان کیلئے کنویسنگ بھی کی تھی جبکہ آج وہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے امریکہ کی دھمکی پر اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔