عمران خان کی حالیہ مقبولیت کے اسباب

عمران خان کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے جلد از جلد انتخابات کے مطالبے نے ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ 
انتخابات کے نام پر حکومتی اتحادیوں کی سٹی گ±م ہوجانا اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ تحریک انصاف نئے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت سکتی ہے۔ علم سیاسیات میں اسے Momentum کہتے ہیں جب کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کی آنے والے انتخابات میں کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ 
تحریک انصاف کی “ہوا” اپنی پوری رفتار سے چل پڑی ہے۔عمران خان کی مقبولیت میں دو امر قابل غور ہیں۔ 
ایک عمران خان کی مقبولیت میں ا±ن عوامل یا اسباب کا عمل دخل جن کا تعلق خود عمران خان اور اس کی پارٹی سے ہے۔ دوسرے عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتوں کی ناکام حکمت عملی ہے، جس میں بڑا کردار حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ 
اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان ایک کرشماتی شخصیت کے حامل راہنما ہیں۔ کرشماتی شخصیت کا حامل راہنما اپنے پیروکاروں میں انتہائی مقبول ہوتا ہے۔ کرکٹ کے عروج کے دنوں سے ہی عمران خان ایک طلسماتی اور دیو مالائی کردار کی حامل شخصیت ہیں۔
عمران خان ایک جاذب نظر اور خوش شکل شخصیت کے مالک ہیں، انہوں نے بڑھتی عمر کے باوجود اپنی جسمانی تندرستی کو ورزش اور متوازن خوراک کے ذریعہ قائم رکھا ہوا ہے۔ وہ چاک و بند نظر آتے ہیں، عوامی جلسوں سے خطاب کرنا، گرمی سردی میں گھنٹوں عوامی اجتماعات اور لانگ مارچز میں شرکت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ا±ن میں ایسا کرنے کے لیے بے پناہ جوش، ولولہ، اور توانائی موجود ہے۔ خصوصاً نوجوان طبقہ میں ا±ن کی مقبولیت قابل دید ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں میں بھی بے انتہا مقبول ہیں،پھر اپنے ہم عمر یعنی ریٹائرڈ لوگوں میں بھی ان کی مقبولیت باقی تمام راہنماو¿ں سے کہیں زیادہ ہے۔ 
دوسری وجہ بھی کرشماتی شخصیت کے ساتھ ج±ڑی ہے۔ دنیا میں دیگر ایسے مقبول راہنماو¿ں کا جائزہ لیں جو کرشماتی راہنما تھے، تو ان سب میں ایک بات مشترک ملے گی کہ ان کے ماننے والے یعنی پیروکار ان سے اور زیادہ محبت کرنے لگتے ہیں جب وہ راہنما کسی بحران اور مصیبت کا شکار ہوں۔ امریکہ میں وہ صدور جنہیں کسی دوسرے م±لک سے خطرہ یا جنگ کا سامنا تھا، ا±ن کی مقبولیت اور عوام میں ان کی پسندیدگی کا گراف ہمیشہ اوپر گیا۔
تاریخ سے ایسی مثالیں بھی ملیں گی جب بڑے مقبول راہنما طویل عرصہ اقتدار میں رہتے ہوئے اپنی مقبولیت برقرار نہ رکھ سکے۔ عدم اعتماد سے پہلے عمران خان متعدد وجوہات کی بنا پر اپنی مقبولیت میں کمی کے مسئلہ سے دو چار تھے، بڑھتا ہوا معاشی بحران اور مہنگائی کی وجہ سے ان پر کڑی تنقید ہورہی تھی، ایک اچھی حکومت کا تاثر قائم کرنے میں وہ بری طرح سے ناکام ثابت ہوئے تھے۔ 
مگر عدم اعتماد کے بعد، ان کے اس بیانیہ نے کہ انہیں امریکی سازش کے نتیجہ میں اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔ خصوصاً ا±ن کے اس جملہ نے کہ ”ہم کوئی غلام ہیں“ ایک بار پھر عوام کو ان کے ساتھ لاکھڑا کیا۔ ایک ساتھ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر نے عمران خان کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
م±لکی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی سیاسی راہنما نے اقتدار سے محرومی کے بعد گھر بیٹھنے کی بجائے عوام کو متحرک کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ عمران خان کی معزولی ایک آئینی اور جمہوری طریقہ سے ہوئی ہے۔ مگر اس کے باوجود ان کے حامی اسے امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
 عمران خان کے اس سازشی بیانیہ کو عوام کی اکثریت نے پذیرائی بخشی ہے۔ جس کا اہم ثبوت مئی میں ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات تھے جس میں تحریک انصاف نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی جس کے نتیجہ میں پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ 
عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جو ک±چھ کہیں گے، ا±ن کے پیروکار بلا چون و چرا اس پر یقین کریں گے۔ باقی سیاسی جماعتوں کے راہنما مل کر بھی وہ بیانیہ تشکیل نہیں دے پاتے جو اکیلے عمران خان ایک تقریر سے بنا لیتے ہیں۔ عمران خان پر توشہ خانہ سے لیکر فرح گوگی اور ا±ن کی اہلیہ ب±شری بی بی تک کے بارے میں کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں بیان کی گئی ہیں، مگر بے سود۔ حکومت کی تمام تر منفی کمپئین کے باوجود عمران خان کی مقبولیت کا ستارہ عروج پر ہے۔ 
اب ہم آتے ہیں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے عمران خان کو مقبول عام کرنے میں کردار کے حوالے کی طرف، خصوصاً تیل کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، روزمرہ اشیا ضرور یہ کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا، بجلی اور گیس کے بلوں میں غیر معمولی اضافہ نے حکومت کے لیے نفرت کے جذبات پیدا کیے ہیں۔ 
حکومت کے مشکل فیصلوں نے جو مشکل عوام کے لیے پیدا کی، لگتا ہے کہ یہ مشکل فیصلے آنے والے دنوں میں حکومتی اتحاد کے لیے بڑی مشکل پیدا کریں گے۔ مہنگائی کے جن کا بے قابو ہوجانا، عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔ عمران خان نے اپنے آخری دنوں میں پیٹرول اور بجلی کی قیمت کم کرکے موجودہ حکومت کے بقول جو بارودی سرنگیں بچھائی تھیں، وہ بالآخر اپنا کام دکھا رہی ہیں۔ 
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا کوئی ایسا امکان موجود ہے کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کم ہو جائے اور حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے سیاسی میدان میں مقابلے کی فضا بن جائے۔ اس کی صرف دو صورتیں ہیں۔
 ایک معاشی بہتری اور مہنگائی میں خاطر خواہ کمی۔ عوام کو ریلیف دینے بغیر، تیل اور بجلی قیمتیں کم ازکم سال پہلے والی سطح پر لائے بغیر گ±ڈ کورننس کا تاثر قائم نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوگیا، اور آئندہ الیکشن سے قبل میاں نواز شریف بھی م±لک میں واپس گئے تو مسلم لیگ (ن) کے لیے سازگار حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
دوسری صورت میں عمران خان کو نقصان صرف عمران خان پہنچا سکتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان قانونی اور عدالتی محاذ آرائی میں مقابلے سے باہر ہوجائیں، ایک سے زیادہ مقدمات ایسے ہیں کہ جن میں ان کی نا اہلی ہوسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کا جانشین کون بنتا ہے اور وہ کیا تحریک انصاف کو متحد رکھنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ مائنس عمران خان کے بعد ہی ایسے حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں کہ موجودہ مخلوط حکومت آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے۔ 
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن