یہ بات انسانی وہم و گمان سے بالاتر ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ایسی پالیسیاں کیوں بناتے ہیں جنہیں بعد میں عوامی ردعمل کے نتیجے میں واپس لینا پڑتا ہے۔ یہ وہ ناپسندیدہ علم ہے جو کسی بھی منتخب عوامی حکومت کیلئے عوامی سطح پر سبکی کا باعث بنتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرضے کی ایک قسط کے حصول میں حکومت کو کیا کیا شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔ اس کا اندازہ حکومت کی طرف سے صرف دو ماہ کے دوران جاری کردہ ان فیصلوں سے لگایا جا سکتا ہے جن کی رو سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا۔ حالانکہ حکومتی اتحادیوں نے عمران خان کے دور حکومت میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد ہم پی ٹی آئی حکومت کے گھمبیر بنائے غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں عوام کو ریلیف مہیا کرینگے لیکن جب وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت فارغ کر دی گئی اور شہبازشریف کی قیادت میں اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آئیںتو وہ تمام وعدے اور اعلانات ہوا ہوگئے۔ الٹے حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مسائل ومشکلات میں گھرے عوام کیلئے تن و جان کا رشتہ بھی برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ گزشتہ دنوں حکومت نے بجلی بلوں میں پچھلی تاریخوں سے اچانک اضافہ کردیا تو پریشان حال عوام بپھرے ہجوم کی طرح احتجاج کرتے سڑکوں پر آگئے۔ انہوں نے بلوں کو پھاڑ دیا کہ اس ظالمانہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا چنانچہ عوام الناس کے ملک گیر احتجاج کا وزیراعظم نے سخت نوٹس لیا اور فیصلہ کیا کہ عوام اور تاجروں پر عائد فکس ٹیکس اور فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج 200 یونٹس تک استعمال کرنے والوں سے وصول نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انکے اس فیصلے سے ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین مستفید ہونگے۔ بلاشبہ حکومت کا یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن بہت بہتر ہوتا اگر یہ فیصلہ پہلے کرلیا جاتا اور عوام کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کی نوبت ہی نہ آتی۔ بہرحال حکومت کیلئے یہ ایک تجربہ ہی تصور کیا جائیگا۔ ابھی حکومت کے پاس کم و بیش ایک سال کا عرصہ ہے۔ کوشش کی جائے کہ ایسے فیصلوں سے اجتناب کیا جائے جو عوام میں حکومت کیخلاف اشتعال پیدا ہونے کا سبب بنیں۔