فلسطینی افسانہ نگار ریاض حسین محمود کی ایک تخلیق قارئین کے مطالعے کے لیے پیش ِخدمت ہے:
یہ میری زندگی کا ایک سیاہ ترین دن تھا، جب ایک سانڈ جیسے پولیس افسر نے ہتھکڑیاں ڈال کر مجھے حوالات میں دھکیل دیا۔ سچ پوچھیں تومجھے بچپن ہی سے پولیس والوں کی سے نفرت رہی ہے۔ انھیں بھی میرے جیسے بے گھر مزدور سے کیسے محبت ہو سکتی ہے۔ اگر دیکھیں تو زندہ دل اور بااخلاق ہونے کی وجہ سے زیادہ ترلوگ مجھ سے مل کرخوش ہوتے ہیں۔ ایک پولیس والا میرے جیسے عام آدمی کو کیسے ایک قابل ذکرشخصیت جان سکتا ہے۔ ہمارے علاقے کا پولیس اسٹیشن گائوں کے مرکزی چوک میں واقع ہے۔ جس گلی سے مجھے گرفتارکیا گیا، وہ اس چوک سے تقریباََ پانچ سومیٹرکے فاصلے پرہے۔ مکروہ اور کریہہ شکل والے پولیس افسر نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالی اور دھکا دیتے ہوئے غصے سے چلایا! ’’تیزی سے قدم اٹھائو!!‘‘مجھ سے چپ نہیں رہاگیا، میں نے جواب میں کہا ’’مرو تم! اللہ تمھاری زندگی کا سفر تیزکرے، تاکہ موت کی منزل تک آسانی سے پہنچ سکو‘‘۔ میری بات سن کراس نے زور سے اپنی لات میری کمر پر رسیدکی۔ اسکے بدلے میں، مجھ سے کچھ نہ ہو پایا تو انتقامی کارروائی کے طور پر میں نے بھی اپنی پیشانی اسی زور سے زمین پردے ماری۔ ’’تمھیں کم ازکم بدلہ لینے کا طریقہ مجھ سے سیکھنا چاہیے‘‘
میں نے پولیس والے کی شکل کو غور سے دیکھا۔ وہ مجھے ہجمیری کا ہم شکل لگا۔ آپ ہجمیری کو نہیں جانتے، یہ وہی شخص تھا جس کا میں نے فاقہ کشی کی حالت میں گدھا چرایا تھا، میں آسانی سے اپنا کام کر چکا تھا۔ وہ تو موت آئے اسکی بیوی کو جوبے وقت نیند سے بیدار ہوگئی اور اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ شور کی آوازیں سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے اور میرا پول کھل گیا، تو میں یہ کہہ رہاہوں: یہ پولیس والا بھی ہجمیری کی طرح تنگ پیشانی والا تھا، بالکل جیسے کسی یتیم بچے کی تنگ پیشانی ہوتی ہے۔ میرے پائوں کی انگلیاں میرے جوتوں سے باہرنکل رہی تھیں۔ یہ صورتحال میرے لیے خاصی پریشان کن تھی۔ میں وہاں سے فرار ہونے کا سوچنے لگا۔ خدانخواستہ اگر میں فرار کی اس کوشش میں ناکام ہو جاتا تو پھر مجھے ساری عمر جیل میں گلتے سڑتے ہوئے گزارنا پڑنی تھی۔ میری بے گناہی سے کسی کوکوئی غرض نہ تھی۔ قانون اندھا ہوت اہے اور عدالت بھی اس قانون کی پابند ہوتی ہے۔ ایک جج ہر معاملے میں تحریر شدہ دستاویزات کو سامنے رکھتا ہے، ثبوت مانگتا ہے، چاہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہی کیوں نہ ہو؟ چونکہ میں پاگلوں کی جنت میں رہتا ہوں اس لیے مکمل طورپر اپنے حواس کھو چکا ہوں، کیوں کہ مجھے اب اپنے کسی بھی جرم کا اقرار کرتے ہوئے خوف یا شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔ مجھے پانچ سال کی سزا تو اپنے پہلے جرم پر مل سکتی تھی، وہی گدھا چرانے کا جرم۔
دوسرا جرم یہ تھا کہ میں نے مْکا مارکر صرافہ بازار کے ایک سود خور جیولر کے اگلے دو دانت توڑ دیے تھے۔ اس نے اپنی دکان پر میری بیوی کی شادی کی رہن رکھی ہوئی سونے کی انگوٹھی واپس کرنے سے انکارکردیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ مجھے ادھارلی گئی رقم واپس کرنے میں کچھ تاخیر ہوگئی تھی لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا، میرے مالک نے مجھے تنخواہ دینے میں اچھی خاصی تاخیرکردی تھی۔ میرے اس جرم کی سزا بھی کم ازکم پانچ سال ملے گی۔ اس وقت مجھے اپنی بیوی اور شیرخوار بچے کی یاد بھی آرہی تھی، مجھے ان دونوں سے سخت نفرت ہے۔ بچے سے خاص طور پر، کیوں کہ وہ سخت سردی میں پیدا ہوا تھا۔ اسکی پیدائش کے دوسرے ہی دن مَیں ایک لانڈری سے بچوں کا اونی کمبل چراتے ہوئے پکڑا گیا تھا، لانڈری کے بڑی توند اور بھاری جیب والے مالک نے میرے خلاف شکایت کردی تھی۔ اتنے بڑے جرم کی سزا کم ازکم عمر قید تو ہوتی ہے۔ سچ پوچھیے تو میں اب پاگلوں کی طرح ہرجرم کو تسلیم کرنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ اس وقت میری دلی خواہش تھی کہ اپنی بیوی سے ملوں اور اسے اس خفیہ جگہ کے بارے میں بتائوں جہاں میں نے ان جرائم سے حاصل ہونے والا اربوں روپے کا مال چھپایا ہوا ہے، تاکہ وہ میری اسیری کے دنوں میں اپنی اور بچے کی کفالت کرسکے۔
پولیس اسٹیشن کا فاصلہ اب دوسو میٹر رہ گیا تھا۔ میں نے دزدیدہ نگاہوں سے پولیس افسر کی جانب دیکھا تووہ بڑی حقارت سے میری ہی طرف متوجہ تھا۔ میں نے کسی میمنے کی طرح لجاجت سے گزارش کی: ’’کیاتم مجھ پر ایک احسان کرسکتے ہو، میں اسکے بدلے میں تمھیں دس پائونڈ دوں گا؟‘‘ ’’مجھے میرے بیوی بچوں کی قسم میں اپنا وعدہ پوراکروں گا‘‘۔ ’’مجھے تھوڑی دیرکے لیے گھر جانے دو، میں واپس آجائوں گا‘‘ ’’تم ایک پولیس والے کو رشوت دے رہے ہو، اس کی سزا جانتے ہو؟ یہ تو بہت بڑا جرم ہے‘‘
یہ بات کرکے اس نے اپنی رفتار تیز کرلی۔ ہتھکڑی کی وجہ سے مجھے بھی تیز تیز چلنا پڑا۔ راستے میں سڑک پرگاڑیوں کا تیز شور تھا، فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی کثرت تھی۔ ’’اوہ میرے خدا! بے جان مشینوں کو سڑکوں پر چلنے کی پوری آزادی ہے، بس انسان ہیں جو اس ملک میں نسل درنسل غلام بنالیے گئے ہیں۔ ایک میں ہوں کہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیا گیا ہوں۔ میری آزادی کی کوئی قدر نہیں، میری نجی زندگی سے کسی کوکوئی دلچسپی نہیں۔ میں عدالت میں موجود جج کوکیسے اس بات کاقائل کرسکوں گا کہ مجھے اس معاشرے نے مجبور اور پاگل بناکر مجھ سے میری انسانیت چھین لی ہے۔ میں نے اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے گدھا چوری کیا، کیوں کہ میں پاگل تھا۔ میں نے اپنے شیرخوار بچے کو سردی کی شدت سے بچانے کے لیے کمبل چوری کیا۔ کیوں کہ میں پاگل تھا۔ میں نے لڑائی میں جیولرکے دودانت اس لیے توڑ دئیے تھے کہ وہ اپنے پاس رہن رکھی ہوئی میری انگوٹھی واپس نہیں کررہا تھا، اس دن وہ انگوٹھی بیچ کر میں اپنے گھرکا راشن لینا چاہتا تھا۔ میرے بیٹے کو سکول کی نئی وردی چاہیے تھی اور میری بیوی کا جوتا پرانا ہوکر بگھارا بن گیا تھا۔ ہم پولیس اسٹیشن کے قریب پہنچے تو میں پوری طرح اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکا تھا، اب کوئی بھی یہاں میری ضمانت دینے کے لیے نہیں آئے گا، شاید میرے بیوی بچوں کو بھی مجھ سے ملنے کی اجازت نہ ہوگی۔ مجھے زندگی کے بچے کھچے دن ایک بدبودار قیدخانے میں گزارنے پڑیں گے۔ تاریک اور ویران قید خانہ۔ میں خیالوں کے یہ تانے بانے بْن ہی رہاتھا کہ اچانک دور سے تیز روشنی چمکی جس سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ یہ ایک تیزرفتار کار کی ہیڈ لائٹس تھیں، جو بڑی تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔ آن واحد میں وہ ہمارے قریب آن پہنچی۔ میں نے موقع دیکھتے ہی پولیس والے کو جو میرے آگے آگے چل رہا تھا، زور سے گاڑی کی طرف دھکا دیا۔ مجھے اسکی خوف ناک چیخ سنائی دی۔ تیزرفتار کار کی ٹکر سے وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ میں نے ہتھکڑی اتاری اور تیزی سے بھاگنا شروع کردیا۔ اب میں ہتھکڑی سے زخمی ہونے والی اپنی کلائی پرمرہم پٹی کروانے کے لیے ہسپتال میں موجود ہوں، اور یہاں اپنے بیوی اور بچوں کا انتظار کررہا ہوں۔ (انگریزی سے ترجمہ)
ذلتوں کے مارے ایک شخص کی کہانی
Aug 25, 2023