یہ اس علاقے کے بچے ہیں جہاں دہشت گردوں کے منحوس قدموں کی وجہ سے ہر وقت کچھ نہ کچھ غلط ہوتا ہے۔ لوگ ڈرہے سہمے رہتے ہیں۔ دہشت گردوں کی کوشش رہتی ہے کہ وہ یہاں اپنے پنجے جمائیں۔ تعمیر و ترقی کی راہیں مسدود کریں یہاں سکول کالج نہ کھلیں، بچیاں تعلیم سے محروم رہیں۔ جدید دور کی سہولتیں یہاں دستیاب نہ ہوں ، عوام ان کے رحم و کرم پر رہیں۔ یہ تو ہماری فورسز کی بے شمار جانی قربانیوں کا صلہ ہے کہ یہاں انہوں نے اور وہاں کے عوام نے قربانیاں دے کر امن بحال کیا اور تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم کیں۔ وہاں کے بچے کتنے ذہین ہیں سب دیکھ چکے ہیں کھیلوں کے میدان سے لے کر تعلیم کے میدان تک وہ عالمی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کے جذبہ جنون اور ہمت کے آگے دہشت گردوں کا خوف بھی بند نہیں باندھ سکا۔ امریکہ میں اس ذہین طالب علم کامران نے عالمی اینی میشن کا مقابلہ جیت کر ثابت کیا ہے کہ ذہنی اور تخلیقی میدان میں بھی ہمارے یہ بچے دنیا کے کسی ملک کے بچوں سے پیچھے نہیں۔ ان میں ہر طرح کا ٹیلنٹ موجود ہے۔ بس اب اگر علاقے میں امن و سکون قائم ہو جائے تو وہاں سے ایسی نئی پود ہمارے سامنے آئے گی جس پر ہم سب پاکستانی فخر کر سکیں گے۔ یہ ہونہار نوجوان کھیلوں اور تعلیمی میدان میں اس وقت بھی کامیابی کی خوبصورت داستانیں رقم کر رہے ہیں جب ان کے علاقے میں علم کے دشمن قدم قدم پر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر یاد رہے روشنی کی ایک کرن ہی رات کی سیاہی کا سینہ چیرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سعودی عرب سے تحفے ملی گھڑی فروخت کرنے پر برازیل کے سابق صدر کی گرفتاری متوقع
خدا خیر کرے لگتا ہے سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی قیمتی گھڑیوں کے تحفے حکمرانوں کو راس نہیں آ رہے۔ ابھی تک ہم اپنے سابق وزیر اعظم کی طرف سے سعودی بیش قیمت گھڑی کی چوری چھپے فروخت کی اْلجھی ہوئی ڈور سلجھانے سے قاصر ہیں۔ کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ فیصلہ کیا ہوتا ہے کچھ معلوم مگر اس کی وجہ سے نیک نامی کا جو بت چکنا چور ہو چکا ہے۔ اس کا کیا بنے گا۔ بحیثیت قوم ہمیں کیاہو گیا کہ غریب تو چلیں بے بس ہوتے ہیں یہ اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ بھی حرص و لالچ کا شکار ہو کر قومی تحائف پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ بعد میں بدنامی کا طوق اپنے گلوں میں سجا کر بھی مکرتے ہیں۔ اب برازیل میں دیکھ لیں یہی سین سامنے آ رہا ہے۔ وہاں کے سابق صدر نے سعودی عرب کے حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی قیمتی گھڑی نیویارک میں چھپ کر 67 ہزار ڈالر میں فروخت کر دی۔ اب اس کی بھنک پڑنے پر وہاں کی حکومت نے تحقیقات شروع کر دیں ہیں جس کے نتیجے میں اس سابق صدر کی گرفتاری متوقع ہے۔ یہ ہوتا ہے قانون یہ ہوتی ہے ریاستی رٹ۔ ہمارے ہاں مہینوں لگ جاتے ہیں ایسے کاموں پر۔ سیاستدان جلسوں جلوسوں میں جھوٹ سچ بول کر شور مچا کر معاملہ الجھانے اور دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی سچ بولنے اور قانون کی پاسداری کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اچھے بھلے کیس سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر یورپ میں ایسا نہیں ہوتا وہاں قانون ازخود راستہ نکالتا ہے اور ریاستی رٹ اس پر عمل درآمد کراتی ہے۔
٭٭٭٭
یو ایس اے ٹی 10 لیگ میں آفریدی کی دھواں دھار بیٹنگ حواس باختہ گوتم الجھ پڑے
کہتے ہیں کراس کر یا برداشت۔ یہ جملہ ہمارے رکشوں بسوں اور ٹرکوں پر ہمارے مقامی دانشوروں نے ازخود لکھ کر لگایا ہوتا ہے تاکہ دوسروں میں صبر و تحمل بیدار ہو۔ اب کیا کیا جائے کرکٹ کے میدان میں جہاں بھی بوم بوم آفریدی آئے گا تو وہ چھا جائے گا۔ گوتم گھمبیر ذرا اپنے کو دیکھے اور پھر شاہد آفریدی پر نظر ڈالے فرق خودبخود نظر آئے گا۔ کہاں سبزی خور سنولایا ہوا گوتم اور کہاں گوشت خور سرخ و سپید نوجوان نظر آنے والا آفریدی۔ یہی حال اور فرق دونوں کے کھیلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ اس میں جلنا سڑنا اور بک بک کرنا عبث ہے۔ دم خم ہے تو کھیل میں دکھائیں یا دو دو ہاتھ کر لیں۔ زبان کلامی عورتوں کی طرح چخ چخ کرنا وہ بھی کھیل کے میدان اچھا نہیں لگتا۔ اب امریکی ٹی 10 لیگ کے کرکٹ میچ میں گوتم کی بائولنگ پر آفریدی نے جس طرح 6 چوکے اور چھکے مارے یہ ان کے زور بازو اور کھیل میں مہارت کا کمال ہے۔ اس پر گوتم کے دل میں چھپی ان کی آفریدی سے پرانی مخاصمت جاگ پڑی اور وہ ان سے الجھنے لگا۔ مگر شاہد آفریدی نے "یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں"
کہتے ہوئے اس کی بک بک پر خاص توجہ نہیں دی اور بس اپنی قاتلانہ نگاہوں اور زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ تکتے رہے ورنہ ایک بیٹ یا گھونسہ ہی کافی تھا۔ ویسے بھی اس وقت بھارتیوں کو خوف ہے کہ کہیں پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت میں آ کر ان کی ٹیم کا جلوس نہ نکال دے کیونکہ اس وقت بفضل خدا ہماری کرکٹ ٹیم میں بھی لالہ کی روح سمائی ہوئی نظر آتی ہے۔ بس بابر اعظم کو کبھی کبھی نظر لگ جاتی یا بریک جس سے خوف آتا ہے۔
٭٭٭٭
علی وزیر اور ایمان مزاری نے جو کہا وہ کوئی ملک برداشت نہیں کرتا۔ سرفراز بگٹی
اب یہ بات وزیر داخلہ سے زیادہ بہتر کون جانتا ہو گا کہ جب جرم ایک ہی ہے تو ملزمان سے علیحدہ علیحدہ سلوک کیوں۔ جو کچھ منظور پشین ، علی وزیر اور ایمان مزاری نے اسلام آباد میں کہا اس پر گرفتار شدہ علی وزیر اور ایمان مزاری کو جوڈیشنل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے اور منظور پشین جو چمڑی اتارنے کی دھمکیاں لگاتے پھرتا ہے۔ اس کو کیوں نہیں پکڑا جاتا۔ اس سے کونسی یاری ہے اور کیوں ہے۔کو ئی سیاسی مسخرہ ہو یا عام شہری اگر وہ قومی اداروں کی جان بوجھ کر نازیبا الفاظ میں توہین کرتا ہے وہ قابل گرفت ہے۔ کیونکہ ایسے الفاظ کوئی اپنے گھر والوں یا بڑوں کے خلاف بھی نہیں بولتا جو بولتا ہے لوگ اسے ننگ اسلاف قرار دیتے ہیں۔ اب علی وزیر اور ایمان مزاری کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے ناانصافی کو ہوا ملے گی۔ اس لیے یکساں سلوک سب کے ساتھ ہوتا نظر آنا چاہیے۔ اول تو یہ جو آج کل بعض گمراہ عناصر کی طرف پاک فوج کے خلاف منفی ذہنیت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ انہیں خاص طور پر تنقید کی زد میں لیا جا رہا ہے یہ ایک مکروہ فعل ہے جس سے عوام اور فوج کے درمیان جان بوجھ کر خلیج پیدا کی جا رہی ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ غلطیاں بے شمار ہو سکتی ہیں مگر اس کا مطلب ایک منظم اور مضبوط قومی ادارے کو کمزور کرنے کی سازش ناقابل معافی ہے۔ یہی ہمارے دشمن چاہتے تھے اور کرنے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ ایسا سوشل میڈیا ہو یا عام جلسوں میں کہنے والوں کیخلاف کوئی نہ کوئی سخت ایکشن لینا ہی ہو گا۔ بٹگرام کے واقعہ میں دیکھ لیں سوشل میڈیا ایک خاص گروہ نے
اس کی آڑ میں فوج کی تمام کوششوں کو ملیامیٹ کر کے وردی والوں کیخلاف منفی پراپیگنڈا کیا گیا جو نہایت افسوسناک ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم نے امریکہ میں اینی میشن مقابلہ جیت لیا
Aug 25, 2023