نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی پانچ روپے چالیس پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی گزشتہ روز منظوری دے دی۔ اس سلسلہ میں مالی سال 2022-23ء کی چوتھی سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کیلئے نیپرا کے روبرو سماعت ہوئی جس میں نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں متذکرہ اضافے کی منظوری دی تاہم اس کا اطلاق لائف لائن کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ بجلی مہنگی کرنے سے متعلق سماعت کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا جبکہ حتمی فیصلہ اور نوٹیفکیشن حکومت جاری کریگی۔ بجلی مہنگی کرنے کی خبر سنتے ہی شہریوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار سامنے آنے لگا جو سوشل میڈیا پر حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو بددعائیں دیتے نظر آئے۔ عوام بجا طور پر اس امر کا شکوہ کر رہے تھے کہ وہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ان کیلئے بچوں کی فیس ادا کرنا اور دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ گھروں کے کرائے ادا کرنے کی بھی ان میں سکت نہیں رہی اور ادویات کی قیمتیں بھی انکی پہنچ سے دور نکل چکی ہیں۔ اب حکومت بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرکے انہیں قبرستان کی جانب ہی دھکیل رہی ہے۔
عوام حکومتی پالیسیوں کا سیاپا کرتے ہوئے ان سے مہنگائی میں ریلیف کا تقاضا کرتے رہے مگر نگران حکومت سابقہ منتخب حکومتوں کیجانب سے عوام کی مشکلات بڑھانے کا ریکارڈ بھی توڑنے کی پالیسی پر گامزن نظر آتی ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 20 روپے فی لٹر تک اضافہ کیا گیا۔ اور اس سے اگلے روز نیپرا کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کی سمری نگران حکومت کو بھجوا دی گئی جس پر ابھی حکومت نے فیصلہ کرنا ہے مگر نیپرا نے اب سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخ ساڑھے چار روپے فی یونٹ تک بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔
دوسری جانب نگران وزیراعظم یہ کہہ کر عوام کو لالی پاپ دے رہے ہیں کہ سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائیگی کیونکہ سستی بجلی نہ دی تو صنعتیں کیسے چلیں گی۔ انہوں نے گزشتہ روز نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر اور پیپلزپارٹی کے ایک وفد سے ایک الگ الگ ملاقات کے دوران یقین دلایا کہ تمام مسائل کے جلدازجلد حل کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ انکے بقول ملکی ترقی کیلئے متحد ہو کر اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ ہم تاجروں کے مسائل کے حل کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائیں گے اور بجلی اور گیس کے مسائل کو اپنے وسائل کے مطابق حل کرینگے۔ نگران وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو قومی اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنی ہے۔ ہم آئینی و قانونی امور کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے نئی جمہوری حکومت کے قیام تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے تاکہ سسٹم میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور انتقال اقتدار کا مرحلہ خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مایوسی کا شکار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو منفی انداز میں کیوں لیتے ہیں۔ ہم سب کو اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
یقیناً اقتدار میں بیٹھ کر لوگوں کو اصلاحی لیکچر دینا تو بہت آسان ہوتا ہے۔ سابق حکمران بھی یہی کرتے رہے۔ عوام کو اچھے دنوں کے امید افزاء لیکچر دیکر انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاتا رہا مگر عملاً عوام کے معاشی قتل اور انہیں غربت کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب دھکیلنے کے راستے نکالے جاتے رہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی قائد اور وزیراعظم عمران خان نے اپنے اپوزیشن دور کے دکھائے گئے خوابوں کا اعادہ کیا مگر اقتدار کے اگلے ہی ہفتے پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف کے حضور دو زانو ہو کر جا پہنچی اور بیل آئوٹ پیکیج کیلئے اسکی ہر شرط من و عن قبول کرکے عوام پر پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکسوں اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ بھی لادنا شروع کر دیا۔ اسکے نتیجہ میں ملک میں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی شرح بڑھنے لگی اور عوام نے بے بس ہو کر چیخ و پکار شروع کر دی تو پی ٹی آئی حکومت کے وزیروں‘ مشیروں کی جانب سے شان بے نیازی کے ساتھ عوام کو یہ لیکچر دیئے جانے لگے کہ شہریوں کی صحت‘ تعلیم‘ روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے حالانکہ آئین پاکستان کے بنیادی انسانی حقوق کے چیپٹر میں یہ ذمہ داری خالصتاً ریاست کی ذمہ داری ہی گردانی گئی ہے جو ریاست کے ایماء پر حکومت وقت نے نبھانا ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے بعد اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت نے بھی عوام کو راندہ ٔدرگاہ بنانے کا یہی چلن اختیار کیا۔ آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی حکومت کے اقدامات کے باعث پاکستان کے معطل کئے گئے بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کیلئے اتحادی حکمرانوں کو پہلے سے بھی زیادہ کڑی شرائط کے ساتھ باندھے رکھا اور اسکے اقتدار کے آخری دو ماہ تک مسلسل ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کا لالی پاپ دیکر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا اور اس دوران پٹرولیم مصنوعات‘بجلی‘ گیس‘ ادویات کے نرخوں میں مسلسل اور بے مہابا اضافہ کرکے عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا۔ وزیراعظم شہبازشریف اپنے کپڑے بیچ کر عوام کے اقتصادی مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے رہے اور عملاً عوام کے تن مردہ پر موجود لنگوٹی تک بھی چھین لینے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ اتحادی حکومت نے جاتے جاتے بھی پٹرولیم نرخوں میں یکایک 20 روپے فی لٹر اضافہ کرکے ان پر پٹرولیم بم چلایا جس سے مزید بڑھتے مسائل کو دیکھ کر عوام کے دماغ کھولنے لگے۔
اسی فضا میں قومی اسمبلی کو قبل ازوقت تحلیل کرکے اتحادی حکومت رخصت ہوئی اور مہنگائی کا عفریت مزید زہرناک بنانے کیلئے نگران حکومت کے سپرد کر گئی۔ بادی النظر میں اس حکومت کا قیام ہی آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ باندھ کر عمل میں لایا گیا ہے جسے اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے حاصل کردہ 9 ماہ کے عبوری بیل آئوٹ پیکیج کی تمام شرائط پر من و عن عملدرآمد کرائے گی۔ اس کیلئے نگران حکومت کا تین ماہ کا متعینہ آئینی دورانیہ بڑھانے کا بھی بندوبست کیا گیا تاکہ نئی اسمبلی کے انتخاب تک وہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دے۔
اس تناظر میں جس حکومت کی بنیاد ہی آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عملدرآمد کی پالیسی پر رکھی گئی ہو‘ اس سے عوام کو ریلیف دینے کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اصولی طور پر تو اب آئی ایم ایف کی ہر شرط مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات پر بوجھ ڈال کر اور انکی بے حد و حساب مراعات اور سہولتوں میں کمی کرکے پوری کی جانی چاہیے مگر اقتدار کے ایوانوں میں بھلا اس سوچ کو کیسے پذیرائی حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ وہاں عملاً اشرافیائوں اور مراعات یافتہ طبقات کا ہی تسلط ہوتا ہے۔ وہ عوام کے حق میں اپنے مفادات کی قربانی دینے والی کوئی پالیسی کیسے لاگو ہوتی دیکھ سکتے ہیں۔
نگران سیٹ اپ کے پہلے ہی ہفتے کے دوران بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ کرکے عوام کیلئے جو اقتصادی مشکلات کھڑی کی گئی ہیں‘ اسکے ازالہ کیلئے عوام کا تنگ آمد بجنگ آمد ہونا بھی فطری نظر آتا ہے جس کیلئے انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں سڑکوں پر نکلنا بھی شروع کر دیا ہے۔ نگران حکمرانوں کو اب عوامی غیظ و غضب سے خود کو بچانے کا بہرصورت بندوبست کرنا ہوگا جو انہیں مہنگائی میں ریلیف دیکر کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔