’’جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں‘‘ اس جملے سے پاکستان میں رہنے والے اور دنیا میں بسنے والے بہت سے لوگ واقف ہیں یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ جملہ اس انسان کے لیے فخر کا باعث ہے جو پیدا ہی لاہور میں ہوا ہو اور یہ احساس امتیاز چند اسلام آبادی دوستوں کے توجہ مبذول کروانے پر پیدا ہوا ۔لاہور صرف شہر نہیں بلکہ ایک احساس کا نام ہے اس کیفیت کو وہ لوگ بہت اچھی طرح بیان کر سکتے ہیں جن کا بچپن وہاں گزراہو ۔ لاہور جانے کا تصور ہی فرحت بخش ہے اور اس کے لیے دل ہر دم آمادہ رہتا ہے مگر لاہور کو ایک سیاح کی حیثیت سے دیکھنے کا خیال لاہور پر بنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز کو دیکھ کر ہوا اور جی میں آیا کہ وقت کی کمی صحیح مگر جتنا ہو سکے لاہور کے گلی کوچوں سڑکوں چوراہوں کا ایک مشاہداتی اور سیاحتی نظارہ کرنا چاہئے ۔
لاہور پاکستان کا دل اور اس میں رہنے والے زندہ دلان …تاریخ ، تمدن، روایات اور ثفاقت کے حوالے سے یہ شہر ہمیشہ سرفہرست رہا ہے اور پاکستان بننے سے پہلے بھی یہاں ادبی و ثقافتی سرگر میاں عروج پر تھیں ۔نوے کی دہائی تک ہر طرح کی ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ کوئی نئی ثقافت جب قدیم ثقافت کی جگہ لیتی ہے تو کسی حد تک توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہے ۔اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بدلاؤ کو لاہور میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
کسی بھی قدیم شہر کی ثقافت اور تہذیب و تمدن گزشتہ نسلوں کی ایسی میراث ہے جو تاریخ کے دھندلے نقوش سے تجربات کی روشنی منعکس کرتی ہے اور اسی روشنی میں آنے والی نسلیں اپنے لیے نئے اصول مرتب کرتی ہیں ۔ ثقافت ایک مرکب ہے جس میں تاریخ ، فنون ، رسوم و رواج عقائد اور مذاہب شامل ہوتے ہیں ۔لاہور کی ثقافت میں یہ سب رنگ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔تاریخی اعتبار سے لاہور بہت اہمیت کا حامل ہے کئی روایات کے مطابق یہ شہر قبل از مسیح سے آباد ہے مگر ہندو مذہب کی مقدس کتابوں کے مطابق اسے ہندو راجہ رام کے بیٹے ’’لوہ ‘‘ نے آباد کیا اور اسی کے نام کی مناسبت سے اس کا نام ’’ لہور ‘‘ اور پھر وقت کے ساتھ لاہور ہوگیا ۔لاہور شہر مختلف سلطنتوں کے زیر اثر رہا جن میں ہندو راجا ، گپت ، راجپوت ، غزنوی ، غوری ، خلجی ، تغلق ، سادات ، لودھی ، مغل ، مرہٹہ ، ابدالی ، سکھ اور برطانوی راج اہم ہیں ۔ ماضی کے لاہور سے شناسائی حاصل کرنے اور تاریخ کے جھروکوں سے جھانکنے کے کے لیے لاہور عجائب گھر سے بہتر جگہ کوئی اور نہیں ہو سکتی ۔ لاہور کی مشہور مال روڈ پر واقع میوزیم کی پرکشش اور پر شکوہ عمارت مغلیہ طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے ۔ عجائب گھر کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں اور بائیں جانب ایستادہ مغلیہ اور سکھ سلطنت کی یادگار دروازے تاریخ کے دہانے پر آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں ۔یہاں موجود مختلف گیلریوں سکھ ، انڈس ، گندھارا ، مخطو طات اور تحریک پاکستان کی گیلریوں سے تاریخ لاہور اورتاریخ پاکستان دونوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ تاریخی ورثے کی ان دیدہ زیب نشانیوں سے دامن چھڑا کر باہر نکلنا خاصا مشکل کام ہے مگر میوزیم سے چند قدم آگے پرانی انار کلی میں موجود ربڑی دودھ اور فالودہ کی دکانیں بھی گرمی اس موسم میں دل کے لیے ایک بھر پور ترغیب ہیں ۔ لاہور کی تہذیب و ثقافت کا ایک اہم عنصر یہاں کے لذیذ اور اشہا انگیز کھانے ہیں۔ پائے ، نہاری ، حلیم ، مچھلی ، چھولے بھٹورے ، قتلمہ ، لڈو پیٹھیاں ربڑی لسی کھیر اور نہ جانے کیا کیا ۔ لاہور میں موجود دوست کی طرف سے رات کا کھانا مشہور’’ حویلی ‘‘ریسٹورنٹ میں تھا جس کے دلکش نظاروں کے بیان اور کھانوں کی لذت کی دھوم نے اس گرمی میں بھی سفر پر آمادہ ہونے میں اہم کردار ادا کیا ۔ لاہور کے تیرہ دروازوں کے بارے میں ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں جن میں زیادہ تذکرہ بھاٹی ، لوہاری ، موچی ، اور دہلی دروازے کا ہوتا یا یوں کہہ سکتے کہ میں نے یہ سنے تھے ۔حویلی ریسٹورنٹ جاتے ہوئے دواور دروازوں کے خوب صورت ناموں سے شناسائی ہوئی جن کے نام ‘‘ روشنائی دروازہ ‘‘ اور مستی دروازہ ‘‘ ہے زرا سی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ روشنائی دروازہ وہ واحد دروازہ ہے جو آج تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اس دروازے کو مغلیہ دور میں بادشاہی مسجد کے ساتھ جوڑا گیا اور رات کو اس میں دیے جلائے جاتے تا کہ نمازی آسانی سے مسجد تک آ سکیں اسی بابت دروازے کا نام روشنائی دروازہ ہوا ۔ مستی دروازے کو اکبری دروازہ بھی کہا جاتا ہے کچھ محقیقین کے مطابق اس کا نام پہلے مسجدی دروازہ تھا جو وقت کے ساتھ مستی دروازہ ہو گیا۔ کنہیا لال کی ‘‘ تاریخ لاہور ‘‘ کے مطابق یہ دروازہ ایک شاہی ملازم مستی بلوچ کے نام سے منسوب ہے ۔حویلی ریستورنٹ لاہور کے مشہور شاہی محلے میں واقع ہے ۔قدیم حویلی اور اس سے ملحق کئی عمارات میں مختلف ہوٹل بنا کر فوڈ سٹریٹ کی شکل دی گئی ہے حویلی کی چھت پر کھانے کے ساتھ ساتھ بادشاہی مسجد ، مینار پاکستان اور دیگر کئی تاریخی عمارات کامسحور کن نظارہ آپ کو مبہوت کرنے کے لیے کافی ہے ۔
انسان ماضی میں رہنا پسند کرتا ہے خوب صورت یادیں تسکین قلب کا زریعہ ہیں ۔یہاں سے نکلتے ہوئے لاہور کے کئی تہواروں کا خیال آیا جو اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں ۔ صنعتی نمائش ، پھولوں کی نمائش ، اور سب سے بڑھ کر بسنت کا انوکھا اور رنگا رنگ تہوار ۔ ثقافت کا احیا اور اس کی محفوظ منتقلی آنے والی نسلوں کے لیے بے حد ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ تمام معلومات صرف عجائب گھروں تک محدود ہو جائیں ۔لاہور سے واپسی پر ایک خواہش تھی کہ کاش اس سمو گ اور آلودہ آسمان کی بجائے دوبارہ سے رنگا رنگ پتنگوں سے بھرا نیلا آسمان دیکھ سکوں ۔بقول شاعر
اک قصہ پارینہ کے کردار ہیں ہم لوگ
گزری ہوئی تہذیب کے آثار ہیں ہم لوگ
شہر محبت
Aug 25, 2023