نگارشاتِ انجم…ڈاکٹر محمد وسیم انجم
drwaseemjum@gmail.com
قصہ انسان کی سرشت میں شامل ہے اور قصہ کہنا اور سُننا قدیم زمانے سے رائج ہے۔ اُردو کی نثری اصناف میں داستان میں مافوق الفطرت عناصر اور دیگر لوازمات کی مدد سے قصہ در قصہ داستان میں کہانی بیان کی جاتی ہے۔ کہانی کہنے کی چیز کو کہتے ہیں۔ اردو ادب میں قصہ، واقعہ، حال احوال، سرگزشت، بیتی ہوئی بات، خواب و خیال، ناول، افسانہ کہانی کے معانی میں آتا ہے۔
افسانہ لغت کے اعتبار سے فرضی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں یہ لوک کہانی کی ایک قسم ہے۔ افسانے میں زندگی کا ایک جز اور ناول میں کل پیش کیا جاتا ہے اس لیے ناول اور افسانے میں طوالت اور وحدت تاثر کا فرق ہے۔انیسویں صدی میں تعلیم کے فروغ اور مختلف تحریکوں کی ملی جلی آوازوں سے مرد کی بالادستی کے باوجود عورت نے اپنی قابلیت اور لیاقت کا لوہا منوا لیا ہے اور اردو ادب کی مختلف اصناف کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔ عورت فطرتاً قصہ گو ہے ۔ ہم بچپن میں اپنی دادی اور نانی سے قصے کہانیاں سُنا کرتے تھے۔ قدرت نے عورت کو اُم القصص بنایا ہے مگر پہلے وہ قصہ کہانی لکھے بھی تو اسے معیوب سمجھا جاتا تھا۔انیسویں صدی میں خواتین نے لکھنے کی ابتداء قصے کہانیوں سے کی۔ خواتین کہانی نگاروں میں انیسویں صدی کے آخر سے عہد حاضر یعنی اکیسویں صدی تک حجاب امتیاز علی، ڈاکٹر رشید جہاں، اکبری بیگم، محمدی بیگم، صغریٰ ہمایوں، خاتون اکرم، عباسی بیگم، مسز عبدالقادر، نذر سجاد حیدر، شکیلہ اختر، صالحہ عابد حسین، صدیقہ بیگم، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم عصمت، خدیجہ مستور اور ان کی بہن ہاجرہ مسرور، جمیلہ ہاشمی، قرۃ العین حیدر، نگار عظیم، بشریٰ رحمٰن، عذرا اصغر، زاہدہ حنا، ترنم ریاض، یاسمین نیئر،غزال ضیغم، نعیمہ ضیاء الدین، قمر جمالی، صادقہ نواب سحر، ثروت خان، شائستہ فاخری،تسنیم فاطمہ، نصرت حسین، شبانہ رضوی اور زیب النساء وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اکیسویں صدی میں خواتین افسانہ نگاروں میں ایک نئی آواز غزالہ جاوید نے اپنے منفرد افسانوں سے ادبی دنیا میں تہلکہ برپا کر دیا ہے۔اسی صدی میں جدید سائنسی ایجادات میں انٹرنیٹ، فیس بک، واٹس ایپ، میسینجر، ٹِک ٹاک اور دیگر ایپس نے سوشل میڈیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس سے جہاں لوگوں میں بیداری آئی ہے اور آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں نت نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ یہ مسائل انسانی زندگی کو مزید پیچیدہ اور دشوار گزار بنا رہے ہیں۔ ان مسائل نے ہر عمر ا ور ہر صنف کو متاثر کیا ہے۔ جن کو جدید افسانہ نگاروں نے موضوع بنایا ہے ۔ غزالہ جاوید نے اپنے افسانوں میں ان موضوعات کو اُجاگر کیا ہے ۔ ان کے افسانوں میں گھریلو کہانیاں پیش کی گئی ہیں۔ والدین اور بچوں کے تعلیمی و سماجی معاملات، دیارِ غیر میں قیام اور روزگار کی تلاش، شادی بیاہ، بچوں کی پرورش، اپنے پرایوں سے تعلق داری، گھرداری، تلخ و شیریں تجربات اور خودغرضیوں کا ذکر نمایاں ہے۔
مصنفہ دیار غیر میں رہتی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی معاشرے کے معاشی و معاشرتی معاملات کے ساتھ ساتھ دیارِ غیر میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کی کہانیوں کو اپنے مشاہدات اور تجربات سے افسانوں کا جزو بنایا ہے ان میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کی طبقاتی کشمکش کے ماحول میں رسم و رواج اور گھریلو خاندانی نظام میں یکسر تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو بڑے احسن طریقے سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مصنفہ کے افسانے معاشرتی، معاشی، سماجی مسائل کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے افسانوں کا انداز بیان تیزی، تندی، شوخی اور طنز پر مبنی ہے۔ یہ افسانے تحلیل نفسی کی بجائے جنسی میلان میں صرف ہیجانی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی کہانیاں بڑی سلیس ہیں اور عام متوسط معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ افسانے متوازن امتزاج کے عکاس ہیں۔ ان کی کہانیوں میں حیات انسانی کی مکمل تصاویر دکھائی دیتی ہیں جو ژرف بینی اور معاشرتی شعور کی گہرائی پر مشتمل ہیں۔قبل ازیں ان کی چار کتابیں ’’چپ کی دہلیز پر دستک، ’’زرد پتے، آشیاں جل گیا اور ویلے دی اُڈیک‘‘ شائع ہو چکی ہیں - غزالہ جاوید کی کتاب ’’چپ کی دہلیز پر دستک‘‘ کا پیش لفظ ممتاز مفتی نے لکھا ہے جبکہ اس کتاب میں سید ضمیر جعفری کی تحریر بھی شامل ہے۔ نیشنل بک کونسل فار پاکستان وزارت تعلیم حکومت پاکستان نے جون1988 ء میں بچوں کے لیے ’’ننھا مالی‘‘ لکھنے پر غزالہ جاوید کو تعریفی سند اور انعام سے نوازا۔ غزالہ جاوید کے افسانوں کو ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملتی ہے۔ مجموعی طور پر غزالہ جاوید کو نچلے اور متوسط طبقے کی محرومیوں اور ناآسودگیوں کی خوب صورت تصویریں بنانے پر بڑی قدرت حاصل ہے کیونکہ انہوں نے اس سب کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اسی لیے حقیقت نگاری کا رجحان غالب دکھائی دیتا ہے۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ مصنفہ کے اس افسانوی مجموعہ کو کوئی نقاد نظرانداز نہیں کر سکتا کیونکہ مصنفہ نے اُردو افسانے کو جدید تقاضوں کے مطابق اعتبار اور وقار عطا کیا ہے۔ انہوں نے متوسط اور نچلے طبقے کی زندگیوں کے دُکھوں، غموں اور مسائل کو اُجاگر کیا ہے۔ معصوم اور الہڑ لڑکیوں کے سینے میں جنم لینے والے خاموش جذبات کو زبان عطا کی ہے۔ ان افسانوں میں مشاہدے کی گہرائی، شعور کی پختگی اور تجربے کی وسعت دکھائی دیتی ہے۔یہ افسانے ڈرامائی عناصر،محبت، رومانس، سماجی اقدار، رسم و رواج، رہن سہن، تعلیم، سکونت، زندگی کے نشیب و فراز، مغربی و مشرقی تہذیبوں کی ولولہ خیز داستانیں ہیں۔آج کے نوجوان نے روایات سے بغاوت اور نشے کی نئی لت سے اپنے آپ کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ بیرون ممالک نقل مکانی کرنے والے شہریت کے حصول کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں اور گرین کارڈ کے لیے شادیوں کی نوعیت بھی فرضی اور کاروباری شکل اختیار کرجاتی ہے۔ غزالہ جاوید نے اپنے افسانوں میں مجموعی طور پر ازدواجی زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے اور ان کا نفسیاتی نقشہ کھینچ کر خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ افسانے مجموعی اصلاحی پہلو لیے ہوئے ہیں۔ اُمید ہے یہ مجموعہ مصنفہ کو بام عروج بخشے گا۔ ’’انشاء اﷲ‘‘۔
غزالہ جاوید کی داستان گوئی کا ہمہ جہت پہلو
Aug 25, 2023