موسمی تبدیلیوں کے’’ اثرات‘‘

Aug 25, 2023

سعدیہ کیانی

الف کی تلاش …سعدیہ کیانی 
Sadianpk@gmail.com 

ایک بار پھربزمین سر ک گئی اور اب کئی خاندان گھروں سے بے گھر ہوگئے، بد قسمت کشمیری اپنی عمر بھر کی کمائی کے ساتھ ساتھ  فصل اگاتی کارآمد زمین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور ایسا کوئی پہلی بار تو نہ ہوا لیکن ایسے واقعات کبھی اس طرح تیزی سے پہلے نوٹ نہیں کئے گئے تھے جیسا کہ گزشتہ چند برسوں میں نظر آتے جارہے ہیں۔پہلے تو کبھی کبھا سننے میں آتا تھا کہ مون سون کی مسلسل برستی بارش میں کوئی گھر بہہ گیا یا زمین کا ایک حصہ برستی بارش کے سبب گارے میں بدل گیا اور پھر کسی دریا کا حصہ بن گیا مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ حالیہ بارشوں میں متعدد بار ایسے واقعات کی اطلاع ملی جس میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور بعض مقامات پر زندگیان بھی خطرے میں نظر آئیں، ابھی حال ہی میں ایسا واقعہ آزاد کشمیر کے ایک گاوں میں ڈومیشی میں پیش آیا جہاں بارشوں کی غیر معمولی رفتار اور زیادتی کے سبب لینڈسلائڈنگ ہوئی اور گاوں کا ایک بڑا حصہ صفہ ہستی سے مٹ گیا، یہ عمل اتنا بڑا تھا کہ اس نے پہاڑ کو تقریبا دو حصوں میں تقسیم کردیا اور گھروں کو مسمار کردیا، خوش قسمتی سے کسی جان کا نقصان نہ ہوا کیوںکہ یہ عمل یکدم ہونے کی بجائے آہستہ آہستہ ہوا جس سے گاوں والوں کو وہاں سے نقل مقانی کرنے کا موقع مل گیا لیکن کیا یہ ایک خطرنات بات نہیں کہ اگر یہی عمل تیزی سے ہوتا تو کیا ان لوگوں کی زندگی خطرے میں نہ پڑجاتی؟ 
یقینا ایسا ہی ہوتا اور یہی بات پریشان کن ہے بروقت ریاست آزاد کشمیر کی ریسکیو اور ایمرجنسی رسپانس نے مقامی لوگوں کی بحالی کے خیمہ بستی اور راشن وغیرہ کا انتظام کرکے کم از کم ان خاندانوں کو جینے کی امید تو دلائی۔رہی بات ان کی متاع حیات کی تو جب زندگی بچ جائے تو مال و اسباب بھی بن ہی جاتے ہیں البتہ داد دینے دیجئے کہ مظفر آباد جیسا چھوٹا سا شہر بھی اپنی عوام کی خدمت کے اعتبار سے ہمارے اسلام آباد سے کہیں بہتر کارکردگی رکھتا ہے۔ یہاں اتنے بڑے ملک کا درالخلافہ ترقی کی جانب بڑھنے کی بجائے آئے روز تنزلی کی طرف چلا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں لوڈ شیڈنگ اس قدر ہے کہ  صرف بجلی کی نہیں گیس کی بھی میسر نہیں۔ بنیادی صحت کے مراکز دروازے سے باہر تک بھرے نظر آتے ہیں۔ سرکاری سکولز میں بچوں کی اتنی کثیر تعداد ہے کہ فی کلاس کم ز کم پچاس طلبہ  ایک چھوٹے سے کمرے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جہاں شدید گرمی اور حبس کے باعث اکثر بچوں کی حالت غیر ہوجاتی ہے سوچئے اس ٹیچر کا جسے آٹھ پیریڈ اسی سائز کی جماعت کے لینے ہیں جبکہ استاد کی تنخواہ اتنی بھی نہیں کہ جتنا ایک وزیر کی بیٹی کا جیب خرچ ہوتا ہے۔ دنیا تعلیم و تربیت پر بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کرتی اور ادھر ایسے حالات پیدا کردئیے گئے کہ عوام کے بچے سکولوں میں نہ جاسکیں اور نہ اساتذہ دلجمی سے پڑھا سکیں۔ دوسری جانب ریاست آزاد کشمیر کے باسی اتنے باشعور ہیں کہ وہ روکھی سوکھی کھانا پسند کرلیں گے مگر اپنے بچوں کواعلی تعلیم ضرور دلائیں گے اسی طرح ریاست تعلیمی اداروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اساتذہ بھی خوش دلی سے علم و ہنر بانٹتے رہیں ۔
بحرحال اس وقت وطن عزیز کو جہاں بنیادی حقوق کی فراہمی میں وسائل کی کمی کا سامنا ہے وہیں ناگہانی آفات اور گوبل وارمنگ کے سبب تیزی سے بدلتی موسمی صرتحال بھی ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ پاکستان میں چار موسم گرمی سردی خزاں بہار یہاں کے باسیوں کو راحت اور زمین کو طاقت دے رہے وہیں اسے دنیا میں ممتاز کرتے رہے اور دنیا بھر سے سیاح موسم بہار اور موسم گرما کے آتے جاتے دنوں میں اس طرف کا رخ کرتے تھے۔گزشتہ برس موسم بہار کا دورانیہ کچھ کم ہوا اور ابکہ پتا ہی نہ چلا کہ موسم بہار آیا کہ نہیں موسم سرما نے جاتے جاتے بہار بھی سمیت لی بس جونہی نئے پتے نظر آئے ساتھ ہی موسم سرما کا۔زور ٹوٹا اور موسم گرما شروع ہوگیا۔ وہ۔جو درمیان میں کچھ وقت موسموں کے ملاپ و رومانس کا ہوا کرتا تھا وہ غائب ہوگیا اور موسمی تبدیلی پر نظر رکھنے والے ادروں نے اس جانب اشارہ دیا ہے کہ عنقریب پاکستان بھی دیگر دنیاکی طرح دو موسموں کو ہی پا سکے گا بہار و خزاں موسم گرما و موس سرما میں ہی مدغم ہو کر اپنی الگ شناخت کھو دینگے۔یعنی آئیندہ نسلیں بہار کو پرانے لوک گیتوں اورخزاں کو شعری مجموعوں میں ہی پاسکیں گے ان کے مقدر میں ان موسموں کو انجوئے کرنا نہیں ہوگا۔
اس وقت مسئلہ صرف بہار و خزاں کے ختم ہونے کا ہی نہیں ہے بلکہ موسمی تبدیلی سے اچانک حادثات اور زندگی کو خطرات بھی لاحق ہیں۔ جیسے کہ مظفر آباد میں ہونے والی لینڈ سلائڈنگ سے بیسیوں گھر تباہ لوگ گھروں سے بے گھر اور ذرخیز زمین کا دریا میں بہہ جانا بہت بڑا نقصان تھا اسی طرح ماہر ارضیات و موسمی تبدیلی کہتے ہیں کہ موسمی بدلاو غیر معمولی ہے۔ جیسے کہ بارش کی رفتار  تیز ہورہا ہے آور جب بارش تیز برستی ہے تو زمین کے مائیکرو پورز پانی سے بھر جاتے ہیں اور مزید بارش کی صورت میں زمین کا بیس یا بنیاد کیچر بننے لگتی اور اس کیچڑ کا ایک جگہ رکے رہنا مشکل ہوجاتا ہے یوں لینڈسلائیڈنگ ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح بادلوں کا پورے علاقے پر برسنے کی بجایے کسی ایک چھوٹے سے قصبے یا ایک گاوں کے ایک حصے پر یکدم برس جانا وہاں سیلاب لے آتا ہے اور پھر تباہی کا سبب بنتا ہے۔ یہ چند مثالیں climate change کے منفی اثرات کی ہیں  جو اس وقت اس خطہ پر خطرے کی طرح منڈلا رہی ہیں اور اگر ان تبدیلیوں سے نمٹنے کیلیے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو مظفرآباد کے گاوں ڈومیشی جیسے حادثات کیلئے تیار رہنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ اقدامات ہمارے ملکی وسائل و معیشت کی استطاعت سے باہر ہیں اس لئیاس وقت غیر ملکی تنظیموں ورلڈ بنک اور یونائیٹڈ نیشن کی موسمی تبدیلیوں کے اداروں کو اس خطہ کی جانب توجہ دینے کی اشد ضروت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ہمارے ارباب اختیار کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئے اور بروقت اس مسئلے کا حل نکالنے کی۔امب توجہ دیں۔

مزیدخبریں