حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تم ایک ایسی آیت کریمہ پڑھتے ہو اگر یہ آیت کریمہ ہم لوگوں میں نازل ہوتی تو اس دن کو ہم عید کا دن بنا لیتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کریمہ کہاں نازل ہوئی اور کس دن نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کہاں تھے جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی میدان عرفات میں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بھی عرفات ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے راوی حضرت سفیان کہتے ہیں کہ مجھے اس بات میں شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا نہیں یعنی آج کے دن میں نے تم پر تمہارا دین کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر پورا کردیا ہے۔ حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (ترجمہ ) کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ان عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہیں دو دو یا تین تین یا چار چار سے کے بارے میں پوچھا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اے بھانجے اس سے مراد وہ یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے زیر تربیت ہو اور وہ ولی اس کا مال اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو بغیر اس کے کہ اس کے مہر میں انصاف کرے اور اس قدر اسے مہر کی رقم دینے پر رضامند نہ ہو کہ جس قدر دوسرے لوگ مہر کی رقم دینے کے لئے راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے اس صورت میں کہ ان سے انصاف کریں اور ان کو پورا مہر ادا کریں اور ان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ عورتوں سے جو ان کو پسند ہوں نکاح کرلیں حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا پھر لوگوں نے اس آیت کریمہ کے بعد رسول اللہ سے یتیم لڑکیوں کے بارے میں پوچھا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) اے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم لوگ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے رخصت مانگتے ہیں عورتوں کے نکاح کی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ان کو فرما دیں کہ اللہ تم کو اجازت دیتا ہے ان کی اور وہ جو تم کو سنایا جاتا ہے قرآن میں سو حکم ہے ان یتیم عورتوں کا جن کو تم نہیں دیتے جو ان کے لئے مقرر کیا ہے اور تم چاہتے ہو کہ ان کو نکاح میں لے آؤ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آیت میں اللہ نے جو ذکر فرمایا (ترجمہ ) کہ تم کو سنایا جاتا ہے قرآن میں اس سنائے جانے سے مراد وہی پہلی آیت ہے ، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فرمان دوسری آیت سے مراد یہ ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے ہاں کوئی یتیم لڑکی زیر تربیت ہو اور مال و خوبصورتی میں کم ہو تو اگر اس وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرنے سے اعراض کرتا ہے تو ان کو اس سے منع کیا گیا ہے کہ جو یتیم عورتوں کے مال اور خوبصورتی میں رغبت کرتے ہیں کہ بغیر انصاف کے ان کے ساتھ نکاح نہ کریں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں فرماتی ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جس کے پاس کوئی یتیم بچی ہو اور وہ آدمی اس بچی کا سرپرست اور اس کا وارث ہو اور اس بچی کے پاس مال بھی ہو اور اسی بچی کے پاس اس آدمی کے علاوہ اس بچی کی طرف سے کوئی جھگڑنے والا بھی نہ ہو تو وہ آدمی اس کے مال کی وجہ سے اس کا نکاح نہ کرے اور اس یتیم بچی کو تکلیف پہنچائے اور برے طریقے سے اس کے ساتھ پیش آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ ) اگر تم کو اس بات کا ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں ان سے نکاح کرو یعنی جو عورتیں میں نے تمہارے لئے حلال کردی ہیں ان سے نکاح کرو اور تم اس یتیم لڑکی کو چھوڑ دو جسے تم تکلیفیں پہنچا رہے ہو۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ایک مرتبہ بازار سے گزر تے ہوئے کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے اور صحابہ کر ام ؓ آپ کے دونوں طرف تھے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔ حضرت مطرف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت آیا آپ پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، میرا مال اے ابن آدم تیرا کیا مال ہے تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھالیا اور ختم کرلیا یا جو تو نے پہن لیا اور پرانا کرلیا یا جو تو نے صدقہ کیا پھر تو ختم ہو گیا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ اس کے مال میں سے اس کی صرف تین چیزیں ہے جو کھایا اور ختم کرلیا جو پہنا اور پرانا کرلیا جو اس نے اللہ کے راستہ میں دیا یہ اس نے آخرت کے لئے جمع کرلیا اس کے علاوہ تو صرف جانے والا اور لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے، سنتوں کو پھیلانے اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ تعاون کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین