ہمارے نام نہاد’ ’تحریری آئین‘‘ کی اصل اوقات عموماََ ان ہی افراد کے ہاتھوں بے نقاب ہوتی رہی ہے جو اپنے تئیں ’’آئین کے تحفظ کیلئے‘‘ اساطیری دلاوروں کا روپ دھارے میدان میں نکل آتے ہیں۔ان دنوں ایسے ’’ڈرامے‘‘رچانے پر عارف علوی کا اجارہ ہے۔ موصوف 2018ء سے ایوان صدر میں براجمان ہیں۔عمران خان کی دیوانہ وار محبت نے انہیں اس مقام تک پہنچایا تھا۔ سابق وزیر اعظم سے وفاداری بشرط استواری نبھانے کو بے چین رہتے ہیں۔یہ حقیقت مگر سمجھ نہیں پارہے کہ ان کی جانب سے برتے حربے وطن عزیز کو مزید اضطراب کے سوا کچھ فراہم نہیں کرتے۔ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہنے کے باوجود دنیا کو یہ پیغام پہنچانے میں البتہ کامیاب ہوجاتے ہیں کہ پاکستان ایک بے لگام ریاست ہے جہاں آئین اور قانون محض دکھاواہے۔ اس کا احترام ہرگز نہیں ہوتا۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ اور دنیا کو خوب خبر ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں ’’لاٹھی‘‘ کس ریاستی ادارے کے پاس ہے۔
گزرے اتوار کی سہ پہر موصوف نے ’’اللہ کو گواہ‘‘ بناکر ایک ٹویٹ لکھا۔ جس کی بدولت دہائی مچائی کہ انہوں نے آرمی اور ریاستی رازوں کے متعلق قوانین میں ہال ہی میں ہوئی سخت گیر ترامیم پر اجرائی دستخط نہیں کئے تھے۔ ان کے دعویٰ پر اعتبار کریں تو حکومت وقت نے مذکورہ ترامیم کو جو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئی تھیں ’’نوسربازی‘‘ سے گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے باقاعدہ قانون کی صورت لاگو کردیا ہے۔
حکومت کی مبینہ ’’نوسر بازی‘‘ کو بے نقاب کرنے کے لئے ایوان صدر میں براجمان شخص نے عارف علوی کی شناخت سے مذکورہ ٹویٹ لکھا تھا۔ اپنی شناخت کے ساتھ بے بسی کا اظہار کرتی ٹویٹ نے دنیا کو درحقیقت یہ پیغام دیا کہ 25کروڑ آبادی کے حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو
ایٹمی قوت بھی ہے ’’صدرِ پاکستان‘‘ کی کوئی وقعت ہی نہیں۔وہ اپنے دفتر میں کسی مغوی کی صورت مقید ہے۔ ہماری ریاست کے ’’اصل مالک‘‘ اپنی ترجیح کے کسی قانون کو متعارف کروانے کے لئے اس کے دستخطوں کے محتاج نہیں۔اس کا دفتر ’’شوشا‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاکستان کے ریاستی بندوبست کی اپنے تئیں ’’حقیقت‘‘ بیان کرنے کے بعد عارف علوی پھر ’’صدر پاکستان‘‘ بن گئے۔ اس شناخت کے ساتھ موصوف نے پیر کے روز ایک اور ٹویٹ لکھ کر ہم عامیوں کو آگاہ کیا کہ انہوں نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کو اپنے منصب کے خلاف ہوئی واردات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایوان صدر سے نکالنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ان کی جگہ حکومت وقت سے محترمہ حمیرہ احمد کی خدمات طلب کرلی گئی ہیں۔ جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔وقار احمد مگر ابھی تک صدر مملکت کے سیکرٹری کے عہدے سے باقا عدہ انداز میں فارغ نہیں ہوئے۔حمیرہ احمد صاحبہ کی تعیناتی کا حکم بھی متعلقہ محکمے سے جاری نہیں ہوا۔
معاملہ فقط اس پہلو تک ہی محدود نہیں۔وقار احمد کے خلاف ’’عارف علوی‘‘ نے دھوکہ دہی کی دہائی مچائی تو جواب آں غزل کے طورپر ریاست پاکستان کے گریڈ 22کے اس افسر نے عارف علوی کو یاد دلایا کہ اس کے دفتر سے فلاں فلاں دن فلاں فلاں وقت پر آرمی اور ریاستی رازوں سے متعلق قوانین میں ترامیم کے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظورہوئے مسودے صدر کے دستخطوں کے لئے بھیجوادئے گئے تھے۔وہاں سے ابھی تک وہ سیکرٹری کے دفتر نہیں لوٹے ہیں۔ سادہ ترین الفاظ میں گریڈ 22کے افسر نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو غلط بیانی کا مرتکب قرار دیا۔’’غلط بیانی‘‘اگرچہ میری دانست میں ’’جھوٹ‘‘ کا مہذب اور شائستہ متبادل ہے۔
عارف علوی مگر ڈھیٹ ہڈی کے حامل ہیں۔اپنے ’’ماتحت‘‘ کے ہاتھوں غلط بیانی کا مرتکب ٹھہرائے جانے کے باوجود اضطراب کی آگ بڑھانے سے باز نہیں آرہے۔ بدھ کے روز انہیں ’’اچانک‘‘ یاد آگیا کہ ہمارا ’’تحریری آئین‘‘ انہیں قومی اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد ’’نوے روز کے اندر‘‘ نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنے کا پابند بناتا ہے۔مذکورہ ’’آئینی فریضہ‘‘ ادا کرنے کے لئے موصوف نے چیف الیکشن کمشنر کے نام ایک چٹھی لکھی ہے۔اس کے ذریعے آئینی اعتبار سے ’’خودمختار‘‘ ٹھہرائے اس عہدے دار کو ’’حکم صادر‘‘ ہوا ہے کہ وہ ’’ایک دو روز میں‘‘ ایوانِ صدر حاضر ہو اور عارف علوی کے ساتھ بیٹھ کر نئے انتخاب کی تاریخ طے کرے۔
یہ کالم لکھنے تک مجھے ہرگز خبر نہیں کہ الیکشن کمیشن کیا لکھے گا جواب میں۔صحافتی تجربہ اگرچہ یہ سوچنے کو اْکسارہا ہے کہ آئین ہی کی بدولت ’’خودمختار‘‘ ٹھہرائے چیف الیکشن کمشنر صدر کو ہمارے تحریری آئین ہی کی وہ شقیں ایک جوابی چٹھی میں یاد دلاسکتے ہیں جو مردم شماری ہوجانے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے نئی حلقہ بندیوں کا تقاضہ کرتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ اصول بھی آئین کے آرٹیکل 51میں طے کردیا گیا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچا ہر پاکستانی ووٹ ڈالنے کا حق دار ہوگا۔اسے مذکورہ حق سے محروم رکھنا غیر آئینی عمل ہوگا۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن تفصیل سے ایک پریس ریلیز جاری کرچکا ہے۔اس کے ذریعے عوام کو ان تمام مراحل سے تفصیلاََ بتادیا گیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کا عمل کیسے اور کب تک (14دسمبر2023)تک مکمل کردیا جائے گا۔’’نوے دنوں کے اندر‘‘ کی بات کریں تو نئی قومی اسمبلی کا انتخاب رواں برس کے نومبر میں ہونا چاہیے۔نئی حلقہ بندیوں کا تقاضہ مگر اس امکان کو رد کردیتا ہے۔اسی باعث آئندہ برس کے فروری کے آخری ہفتے میں نئے انتخاب کی امید باندھی جارہی ہے۔ اگرچہ اب کنوردلشاد جیسے ماہرین مئی 2024کے اشارے بھی دینا شروع ہوگئے ہیں۔
بہرحال ’’تحریری آئین‘‘ کی بنیاد پر صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور آئینی اعتبار سے ’’خودمختار‘‘ چیف الیکشن کمشنر نئے انتخاب کے حوالے سے دو مختلف موقف اختیار کرچکے ہیں۔ان دونوں میں کون درست ہے؟ اس کا فیصلہ میرے اور آپ کے بس سے باہر ہے۔ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ ہی کو طے کرنا ہوگا۔
اس کورٹ نے مگر 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے حوالے سے بھی ایک فیصلہ کیا تھا۔ وہاں مگر اب بھی محسن نقوی کی قیادت میں نگران صوبائی حکومت کی عمل داری برقرار ہے۔ اس ’’نظیر‘‘ پر اعتبار کریں تو ’’نوے دنوں کے اندر‘‘ والی بات نئی اسمبلیوں کی تشکیل کا سبب ہوتی بھی نظر نہیں آرہی۔