خبر ہے کہ جمعیت علماء اسلام بھی سیاسی طور پر مختلف راستہ اختیار کر سکتی ہے اب تک تو مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے حکمران اتحاد کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، مولانا تو حکمرانوں کو چیلنج بھی دے چکے ہیں لیکن گذشتہ روز صدر پاکستان آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات کے بعد ہواؤں کا رخ تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ صدر پاکستان نے مولانا فضل الرحمٰن کو بندوق کا تحفہ بھی دیا ہے۔ اس تحفے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر مولانا موجودہ حکومت کو اپنا حریف سمجھتے ہیں تو صدر آصف علی زرداری نے بندوق مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے کر کے انہیں بیک فٹ پر کر دیا ہے۔ وہ اس طرح کے یہی وہ بندوق ہے جس سے آپ ہم پر فائرنگ کر سکتے ہیں۔ اب یہ تو مشکل ہو گا کہ مولانا فضل الرحمٰن اس تحفے اور ملاقات کی قدر نہ کریں وہ بھی ان حالات میں کہ جب دونوں کے مابین قریبی تعلقات بھی ہوں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات ہو رہی ہے اس ملاقات کے بعد دوریاں کم ہونے کے امکانات بھی ہیں۔
خبر کچھ یوں ہے کہ صدر مملکت آصف زرداری نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔ملاقات میں مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کو حکمران اتحاد سے تحفظات پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔
اس تفصیلی ملاقات میں وفاقی وزیر داخلہ سید محسن رضا نقوی بھی موجود تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس اہم ملاقات میں آئندہ ہفتے ہونے والی ممکنہ قانون سازی پر تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔ آصف علی زرداری ریاست کے سربراہ کے طورپر ملاقات کیلئے آئے ہیں اور وہ مولانا فضل الرحمٰن کو ہر وقت حکومت کی مخالفت میں نہیں دیکھنا چاہتے وہ مولانا اور ان کے ساتھیوں کے تحفظات کو بھی سنجیدہ لے رہے ہیں۔ صدر مملکت کا مولانا فضل الرحمٰن کے گھر آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت سیاسی محاذ پر زیادہ مخالفت کے بجائے مفاہمت کی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بھی مسلسل ملاقاتیں کر رہی ہے۔ بالخصوص گذرے چند ماہ کے دوران جمعیت علماء اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کا مختلف معاملات میں ایک جیسا موقف اور مولانا سے پی ٹی آئی قیادت کی ملاقاتیں آگ اور پانی کا ملاپ ہی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سیاسی اور نظریاتی طور پر دونوں سیاسی جماعتیں ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی مخالفت میں رہی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمٰن نے ہمیشہ ایک دوسرے پر بہت سخت الفاظ میں تنقید کی ہے لیکن رواں برس ہونے والے عام انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں میں قربتیں بڑھیں لیکن اب یوں لگتا ہے کہ حالات پھر بدل رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن دوبارہ اپنے پرانے سیاسی دوستوں کے ساتھ ہی سیاست کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ہو رہا ہے۔ ملکی سیاسی خاصی ہلچل بھی ہے۔ ان حالات اس ملاقات کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کیا ہے اور انہوں نے پاکستان کی حدود سے گذرتے ہوئے تمام تر خیر سگالی کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے گذرے ہیں۔ عمومی طور پر کسی دوسرے ملک کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے ایئر ٹریفک کنٹرولر کے ذریعے غیر ملکی سربراہ کا خیرسگالی پیغام دینا روایت ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کی فضائی حدود سے گذرتے ہوئے اس روایت کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا اور انہوں نے پاکستانی عوام اور حکومت کو خیرسگالی کا کوئی پیغام نہیں دیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کی فضائی حدود اس وقت استعمال کی جب وہ پولینڈ سے واپس آ رہے تھے۔ بھارت کی طرف سے ویزے جاری نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی سنوکر ٹیم ورلڈ جونیئر سنوکر چیمپئن شپ میں شرکت سے محروم ہو گئی ہے۔ مودی صاحب ایک طرف پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی حکومت کھیلوں کو سیاست زدہ کرنے میں سب سے آگے ہے۔ یہ خبر آج حوالے کے طور پر ہے تاکہ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو یاد رہے کہ کہیں تو تعصب سے باہر نکل آئیں۔ آپ کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام جاری کرنے سے یہاں کوئی جشن تو ہونا نہیں تھا یہ عمل آپ کی متعصب سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے تو آپکا ابھینندن بھی چھوڑ دیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا طیارہ صبح سوا دس بجے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا اورگیارہ بج کر ایک منٹ پر بھارت میں داخل ہوا۔
بھارتی وزیراعظم کا طیارہ چھیالیس منٹ تک پاکستان کی حدود میں رہا، بھارتی وزیراعظم کا طیارہ چترال کے اوپر سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوا اور اسلام آباد اور لاہور کے ائیر کنٹرول ایریا سے گزرا۔ نریندر مودی صاحب آپ سے ایسے خیر سگالی کی توقع بھی نہیں ہے۔ آپ تو مسلمانوں کے قاتل ہیں۔
آخر میں سجاد بلوچ کا کلام
شہر پر بے سکونی کا سایہ ہے کیا، ہر طرف شور کرتی ہوئی گاڑیاں
سب کسی حادثے کے تعاقب میں ہیں، جلد باز آدمی، دوڑتی گاڑیاں
جس طرح خواب کے جھٹپٹے میں کوئی نقش ماضی کا معدوم ہوتا ہوا
جس طرح دھند میں گائوں سے شہر کی سمت جاتی ہوئی صبح کی گاڑیاں
شہر سے بس مرا کام کا ناتا تھا، بھاگتے دوڑتے دن گزر جاتا تھا
مجھ کو ڈر رہتا تھا رات پڑنے سے پہلے نکل جائیں گی گائوں کی گاڑیاں
ہجر کے حادثے کا عجب خوف تھا ہم کہ یک جا بھی تھے فاصلہ بھی رکھا
جس طرح دھند میں، ایک دوجے سے بچ بچ کے دو ساتھ چلتی ہوئی گاڑیاں
یہ ستم تو ہے محرومیوں سے سوا، ایسے لوگوں سے اپنی رہ و رسم ہے
جن کی باتوں کا محور ہیں مہنگے پلاٹ، اونچے ایوان اور قیمتی گاڑیاں
میرا دل اب بھی ہے سائیں حاضر کے میلے کے جگمگ کھلونوں میں اٹکا ہوا
کوئی لڑکا سا گلیوں میں دوڑاتا ہے آج بھی نیلی پیلی ہری گاڑیاں
اس کا کہنا تھا یہ بھیگتی شام میں کار میں گھومنے کا جدا لطف ہے
بھیگتی شام میں دل جلاتی ہیں سڑکوں پہ اب بے سبب رینگتی گاڑیاں