زرداری کا اچانک ایوان صدر سے نکلنا بغیر وجہ نہیں 

اسلام آباد (عترت جعفری) وفاقی وزیر اطلاعات نے اگرچہ قومی اسمبلی، سینٹ یا مشترکہ اجلاس میں عدلیہ کے متعلق کسی آئینی یا قانونی ترامیم کرنے کے حوالے سے امکان کو مسترد کیا ہے تاہم قانونی حلقوں کا دعویٰ ہے  حکومت اہم معاملات کو زیرغور لا سکتی ہے۔ صدر زرداری کا اچانک ایوان صدر سے نکلنا خالی از علت نہیں، اسی طرح الفاظ کی جنگ میں مصروف مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان سیز فائر اور بلاول بھٹو کا  وزیراعظم سے ملنا اور مسلم لیگ ن کی طرف سے پی پی کی پنجاب میں ایڈجسٹمنٹ کی کمیٹی اجلاس کو بلا لینا نظرانداز کی جانے والی پیشرفت نہیں، ان کے عقب میں کوئی بڑا ممکنہ قدم موجود ہے، آصف زرداری  کی جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات سے اس بات کو تقویت ملتی ہے ایک طرف وہ جے یو آئی کو پی ٹی  آئی سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ممکنہ آئینی ترامیم کے پیکج کو منظور کرانے کے لئے جے یو آئی کی حمایت کے متمنی بھی ہو سکتے ہیں۔ پی پی کے ذمہ دار ذریعے کا کہنا تھا اس ملاقات کے بعد جے یو آئی کی اپوزیشن کی جماعت کے ساتھ بہت زیادہ قربت بڑھنے کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر تھے ممکنہ ترامیم کیا ہو سکتی ہیں؟، اس وقت مختلف قیاس آرائیوں کی صورت میں تجویز یہ ہے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر دیا  جائے اور عدلیہ کے احتساب  کو موثر  بنایا جائے، پارلیمنٹ میں اس وقت جو پارٹیاں موجود ہیں ان میں سے بیشتر وہ ہیں جنہوں نے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے ہیں۔  پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی اور بعض دوسری جماعتیں بھی چارٹر آف  ڈیموکریسی پر دستخط  کر چکی ہیں۔ دیگر تجاویز بھی ہیں جن میں  ججز کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد بڑھانے کی تجویز موجود ہے، تاہم ان  تجاویز کے ساتھ عملی مشکلات ہیں۔ ریٹائرمنٹ  کی عمر  بڑھانے کے لیے پنشن کے قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی جو بڑا مسئلہ نہیں ہے، تاہم یہ تجویز  عمل درآمد  سے پہلے ہی سیاسی بیان بازی  کی وجہ سے متنازعہ ہو چکی ہے اور ایک سیاسی  جماعت کی قیادت تسلسل کے ساتھ نکتہ چینی کر رہی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن