پانی۔۔۔۔۔ زندگی ہے۔۔۔پانی۔۔۔۔۔آب حیات ہے۔پانی۔۔۔۔۔ر حمت ِ خداوندی ہے۔لیکن یہ پانی بعض اوقات ہمارے لیے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے۔ جس موسم میں ہمیں کھیتوں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی ضرورت ہوتی ہے ، اس موسم میں ہم پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں اور برسات کے موسم میں جب آسمان سے گھٹائیں برس رہی ہوتی ہیں ہمارے ڈیم ، دریا اور ندیاں نالے پانی سے بھر جاتے ہیں تو بھارت اپنے دریاﺅں کا پانی ہماری طرف موڑ دیتا ہے جس سے ہمارے ہاں سیلاب آجاتے ہیں ، ہماری نہریں اور دریا بپھر جاتے ہیں ، ان کی تندوتیز اور سرکش موجیں آس پاس کی بستیوں ، گھروں ، دیہاتوں اور کھیتوں کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتی ہیں۔ اور تقریباََ ہر سال بڑے پیمانے پر ہمارا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی بے تدبیری اور نالائقی کی وجہ سے ہورہا ے۔ ایک یہ کہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ملک میں نئے ڈیم نہیں بنائے جارہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس کی آبی جارحیت کا موثر جواب نہیں دیا جارہا۔بھارت کی آبی جارحیت کا ہمیں اس وقت سے سامنا ہے کہ جب پاکستان ابھی معرض وجود میں آیا تھا۔ بھارت نے پاکستان پر پہلا آبی حملہ یکم اپریل 1948ءکو مادھوپورہیڈورکس سے کیا تھا۔اس ہیڈورکس سے دونہریں لاہوربرانچ اورمین برانچ پنجاب کے اس علاقے کوسیراب کرتی تھیں جواب پاکستان کے پاس ہے۔اسی طرح بہاولپورکی ریاستی نہراور9چھوٹے راجباہ سنٹرل باری دوآب سے پانی لیتے تھے اورسنٹرل باری دوآب کامنبع بھی مادھوپورہیڈورکس تھا۔بھارت نے یکم اپریل 1948ءکولاہوربرانچ،مین برانچ،اورسنٹرل دوا?ب باری نہروں کا34دن پانی بندرکھا اس کے نتیجے میں پاکستان کی متاثرہ نہروں پرگندم کی فصل سوکھ گئی،لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ نقل مکانی کرنے لگے اور ہزاروں جانورپانی نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے تھے۔یہ بہت ہی ظالمانہ فعل تھاجوصرف ہندوبنیاہی کرسکتاتھا۔اس وقت سے اب تک بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل ا?بی جارحیت جاری ہے۔اس وقت بھی ہمیں اسی قسم کی سنگین صورت حال کا سامنا ہے ملک بھر میں بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔کئی علاقوں میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔ سڑکیں اور ریلوے ٹریک بہہ گئے ہیں۔ کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر بارشوں کے باعث ندی نالے بپھر گئے اور نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ اسی طغیانی سے جنوبی پنجاب کے بھی بہت سے علاقے زیر آب ہیں۔اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے علاقے استور کے دیہات روبیل ،فینہ ،بولن سمیت متعدد گاﺅں بھی زیر آ ب ہیںتو دوسری طرف بھارت نے ایک بار پھر آبی دہشتگردی کرتے ہوئے بغیر اطلاع کے دریائے راوی اور چناب میں پانی چھوڑدیا ہے جس سے ہزاروں دیہات اور لاکھوں ایکڑ رقبہ زیر آب آگیا ہے۔تادم تحریر دریائے چناب پر قادر آباد بیراج میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے جبکہ دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر چالیس سے پچپن ہزار کیوسک پانی کی تند وتیز لہریں سر پٹخ رہی ہیں۔پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے دریائے راوی میں سیلاب کی وارننگ جاری کی جاچکی ہے اور علاقہ مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔خدشہ ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک بھارتی آبی جارحیت کے باعث پنجاب کے دریاﺅں اور ندی نالوں میں شدید قسم کی طغیانی آ سکتی ہے جبکہ دریائے چناب میں پانی کی سطح 2 لاکھ کیوسک سے ڈھائی لاکھ کیوسک تک بڑھنے کا امکان ہے جس کے باعث آ ئندہ چوبیس گھنٹوں میں دریائے چناب میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔جبکہ نارووال کے قریب ظفروال میں طغیانی کے باعث نالہ ڈیک میں تین نوجوان ڈوب گئے ہیں۔ اسی طرح سیہون کے مقام پر نچلے درجے کے سیلاب کی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔سیلابی پانی کچے کے علاقے اور کئی دیہات میں پانی داخل ہوچکا ہے۔ دریائے سندھ میں سیہون کے مقام پر پانی کا ایک بڑا ریلا کوٹری بیراج کے طرف بڑھ رہا ہے۔ سیہون کی یونین کونسل کے30 سے زائد دیہات سیلابی پانی کی لپیٹ میںآتے ہیں۔نوشیرو فیروز اور دادو کی آبادیوں میں پانی داخل ہوچکا ہے۔بلوچستان میں بارش کا پانی تباہی مچا رہا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق اب تک درجنوں افراد جان بحق ہوچکے ہیں۔ جبکہ یہ ابھی بارش اور سیلاب کی شروعات ہیں۔
بلاشبہ یہ صورت بہت پریشان کن ہے۔۔۔۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس قسم کی سنگین صورت حال کا ہمیں پہلی دفعہ سامنا کرنا پڑا ہو۔ کئی دہائیوں سے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ستم یہ ہے کہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ان نقصانات سے بچنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کئے جارہے۔ 75 برس کے عرصہ میں بیشمار حکومتیں آئیں اور رخصت ہوئی ہیں کسی دور حکومت میں بھی نہ تو بھارت کی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا نہ ہی پاکستان میں بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے نئے ڈیم بنائے گئے اور نہ ہی سیلاب کے نقصانات سے بچنے کیلئے عوامی سطح پر کوئی تربیتی پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس کی تھی کہ عوامی سطح پر نوجوانوں میں اس طرح کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے آگاہی مہمات چلائی جاتیں اور ان کی تربیت کی جاتی۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر یہ کام کرلیے جاتے تو ہم ہر سال آنے والے سیلاب میں بڑے جانی اور مالی نقصان سے بچ سکتے تھے۔
ان حالات میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے شکوہ ِ ظلمت شب کی بجائے اپنے حصے کی شمعیں روشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم نے پورے پنجاب میں نوجوانوں کو سوئمنگ پولز اور نہروں میں تیراکی کے کورس کروانے کا سلسلہ شروع کیا۔ان کورسز میں نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ سوئمنگ کیسے کی جاتی ہے اور اس میں کتنے سٹروکس ہوتے ہیں۔ یہ ابتدائی کورس ہیں جو لڑکے یہ کورس مکمل کرلیتے ہیں انھیں منگلا ڈیم پر بنائے گئے ریسکیو ٹریننگ پوائنٹس پر بھجوایا جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے جن علاقوں میں بڑی بڑی نہریں ہیں وہاں بوٹ ہینڈلنگ کے کورس کروائے جاتے ہیں۔ یہ تیاریاں ان علاقوں کیلئے ہیں جہاں پانی زیادہ گہرا نہیں ہوتا البتہ وہ علاقے جہاں سیلاب کا پانی زیادہ گہرا ہوان کیلئے ہم غوطہ خور تیار کررہے ہیں جو 200فٹ تک گہرے پانیوں غوطہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہے۔ دریائے سندھ ایک طویل سفر کرتا ہوا سمندر میں جاگر تا ہے۔ برسات کے موسم میں راستے میں یہ بہت سے مقامات پر تباہی پھیلاتا ہے۔اسی طرح دیگر نہریں اور دریا جو تباہی پھیلاتے ہیں ان دریاﺅں اور نہروں پر ہمارے مقامی لوگ موجود ہیں جو ان کی گزر گاہوں کے چپے چپے کے بارے میں معلومات رکھتے ، ان تمام مقامات پر ہم ریلیف اپریشن کی تیاریاں کررہے ہیں۔ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہماری ریسکیو اینڈ واٹر مینجمنٹ کی ٹیمیں اور رضا کار الرٹ ہیں۔ا س حوالے سے گذشتہ ماہ بہاولپور ،میرپور ،ساہیوال ،جہلم ،گجرات سمیت دیگر علاقوں میں سیلاب سے ممکنہ بچاﺅ کے لیے موک ایکسرسائز کا بھی انعقاد کیاگیا ہے ۔میں مرکزی مسلم لیگ کے تمام ضلعی ذمہ داران سے کہوں گا کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے اور ملک وقوم کی خدمت کیلئے ، تمام بنیادی چیزیں ،اشیاء خوردونوش ،عارضی خیمہ جات سمیت خود کو تیار رکھیں۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور اللہ ہمارا حامی وناصر ہو آمین ثم آمین!