مشہور ناول نگار لنڈا ریپوپورٹ کے بقول "تنقید کرنا اصلاح (create) کرنے کی نسبت بہت آسان ہے"۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر یہ قول یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ کسی مصور کے تخلیق کردہ شاہکار پر تنقید تو وہ بندہء خدا بھی ٹھوک بجا کر کر دیتا ہے جس نے زندگی بھر برش، کینوس اور رنگوں کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوتا اور نہ ہی کسی آرٹ گیلری میں کبھی کوئی نمائش دیکھی ہوتی ہے۔ البتہ زیرِ بحث فن پاروں کو مزید بہتر وہی کر سکتا ہے جو اس مصور سے کہیں بڑھ کر تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہو۔ پبلو روئز پیکاسو، صادقین اور گل جی کے فن پر ان سے برتر مصور ہی تنقیدی رائے دے سکتا ہے۔ علامہ اقبال، غالب اور میر کی شاعری پر تنقید و اصلاح کرنے کا دعویٰ بھی وہی شاعر کر سکتا ہے جس کا شاعری کے میدان میں قد کاٹھ اور نام و مقام ان سے بلند و بالا ہوگا۔ہم پاکستانیوں کے نزدیک قائداعظم کی سیاست، راست گوئی اور اصول پسندی ہمیشہ شک و شبہ سے بالا تر ٹھہری، اِس کے باوجود خان عبدلولی خان نے اپنی کتاب "حقائق حقائق ہیں" میں ان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
پاکستان کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کو بھی بندہ و صاحب و محتاج و غنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ زبوں حالی میں تسلسل کی وجہ سے اظہارِ رائے میں چھن و چھنک کے اثرات پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائے جا رہے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ غمزدہ اور مایوس لوگ مستقبل قریب یا بعید میں مسائل کے حل کے سلسلے میں کسی کارگر منصوبہ بندی کا فقدان دیکھ رہے ہیں۔ محب وطن لوگ تقریروں، تحریروں اور ٹی وی چینلز پر مختلف پروگراموں کے ذریعے کبھی ڈھکے چھپے انداز میں اور کبھی کھل کر اپنی اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مشوروں سے بھی نواز رہے ہیں مگر افسوس کہ یہ آواز طاقت کے اونچے در و دیوار کے حامل ایوانوں تک نہیں پہنچ پا رہی یا اگر پہنچ بھی جاتی ہے تو اْن کو دَرخورِ اِعتِناء نہیں سمجھا جاتا۔
امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں حکومتی پالیسیاں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے ماہر اساتذہ کی سفارشات پر ترتیب دی جاتی ہیں۔ بعد ازاں مرتب شدہ وہ پالیسیاں داخلی اور خارجی سطح پر implement بھی کی جاتی ہیں۔ عمومی طور پر ان کے بہتر اور مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کا کام طلباء کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ تحقیق و جستجو اور مشاہدات و تجربات کے ذریعے نئے اور بہتر راستوں کا کھوج لگانا اور الجھی گتھیاں سلجھانا ہوتا ہے۔ الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ہماری اردو شاعری میں تو الجھی لٹ بھی بالم کی مدد کے بغیر نہیں سلجھائی جا سکتی، کہاں ملکی معاملات اور وہ بھی انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں …۔
صد حیف کہ ہمارے ہاں یونیورسٹی کے تجربہ کار پروفیسروں کے علم، تعلیم، تجربے اور تحقیق کے کاموں سے فیض یاب ہونے کی کوئی روایت فروغ نہیں پا سکی۔ فرض کریں کہ ایسی کوئی سرگرمی ان اساتذہ کے ذمے لگائی بھی جاتی ہے تو وہ مقتدر قوتوں کے سامنے بے بس ہو کر کہاں اپنی دیانتدارانہ، غیر جانبدارانہ اور صاف و شفاف رائے دے سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو آمرانہ سوچ ہی قوم و ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ اس سوچ کے لئے سویلین یا نان سویلین ہونے کی شرط ہونا بھی کوئی لازم نہیں جبکہ دوسری طرف دنیا کی تاریخ اِس امر کی گواہ ہے کہ فردِ واحد کے اقدامات صائب اور مقبولِ عام فیصلوں کا مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں اکثر و بیشتر ناکام رہتے ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں ہر حاکم عقلِ کل ہوتا ہے۔ دہائیوں سے رائج یہی روایتی اپروچ تنزلی کے گراف کو بہت تیزی سے نیچے لے گئی ہے۔ سابق وزیراعظم، شاہد خاقان عباسی کافی عرصہ ٹرتھ اینڈ ریکنسلیشن کمیشن (TRC) قائم کی بات کرتے رہے ہیں مگر کسی نے کان نہیں دھرے۔ یورپی ممالک سمیت بہت سے دیگر ممالک میں یہ کمیشن بنے، TORs پر کام ہوا اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل کئے گئے۔ روانڈا میں تو TRC کو مستقل بنیادوں پر قائم کر دیا گیا ہے۔ دراصل TRC عموماً authoritarian رجیم کے زوال کے بعد وجود میں آتا ہے۔ پاکستان میں یہ رجیم کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتی ہے، اس لئے کمیشن کا نوٹیفائی ہونا ایک خواب یا ناتمام حسرت کے سوا اور کچھ نہیں۔
اصلاحِ احوال کی ایک اور مثبت تجویز شاہد خاقان عباسی مختلف ٹی وی چینلز کو دئیے گئے اپنے انٹرویوز میں بارہا عوام، حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بات پی ڈی ایم کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے فلور پر بھی کر چکے ہیں۔ یہ تجویز پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی مختلف متفکر پاکستانیوں کی جانب سے پیش کی جا رہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، عسکری قیادت اور چیف جسٹس آف پاکستان کو مل بیٹھ کر پاکستان میں جاری سیاسی اور معاشی بحران کے حوالے سے ڈائیلاگ کرنے چاہئیں اور اس بحران سے نمٹنے کے لئے مشترکہ طور پر کوئی قابلِ قبول طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔ ان کے نزدیک اِس فارمولے کے سوا کوئی اور طریقہ گارگر ثابت ہو نہیں ہو سکتا۔
اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار ہیں جبکہ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن میں ہیں۔ اگر ملک و قوم کی خاطر اِن سب جماعتوں کے رہنما آپس میں مل بیٹھ کر اور جماعتی مفادات یا ماضی کے ذاتی گلے شکووں کو پس پشت ڈال کر ملک کو جملہ اقسام بحرانوں سے نپٹنے اور ان سے نجات پانے کے ادنیٰ سے امکانات پیدا ہونے کی ڈھارس بندھا سکتے ہیں تو ایسی ملاقاتیں ضرور ہونی چاہئیں اور تواتر سے ہونی چاہئیں۔ ملک کے بہترین مفاد کی خاطر اگر اپنی اناؤں کو قربان بھی کرنا پڑے تو یہ کڑوی گولی بھی نگل لینی چاہئیے۔ ملک ہے تو ہم ہیں۔ ہماری سیاست، حکومت، امارت، شہرت، کاروبار، جاہ و جلال اور نوکریاں وطنِ عزیز کی سالمیت، وقار اور استحکام ہی سے تو وابستہ ہیں۔ مذکورہ رائے کے احترام میں ملک میں جاری بحران کے خاتمے کے لئے پانچ چھ سیاستدانوں اور فوج اور عدلیہ کے سربراہان کو مل بیٹھ کر درجنوں میٹنگز بھی کرنا پڑتی ہیں تو کر گزریں۔ اگر چھ سات افراد کی کوششوں سے حالات نے بہتری کی طرف ٹرن لے لیا تو تاریخ میں ان سب کے نام جلی حروف میں لکھے جائیں گے۔ قوم اس وقت سکتے کی حالت میں ہے اور چارہ گروں سے اپنے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا چاہتی ہے۔