سیاست گری خوار ہے

ملک میں بونی سیاست کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام اورخلفشار نے ملکی معیشت کو ڈبو کر رکھ دیا ہے ، معیشت کی بدحالی عوام پر مہنگائی کی صورت میں عذاب بن کر گر رہی ہے ، ملک کے 85 فیصد عوام محنت و مشقت سے کما تے ہیں جبکہ 15 فیصد اقتدار پر قابض طبقہ لوٹ کر کھانے والوں کا ہے ، عوام اور ملک سے مخلص ہونے کے جذبے کا فقدان ہے ، ملک کا ہر حصہ جو انتظامی اغراض سے ایک ذیلی مرکز قرار دیا گیا ہے ان سب حصوں کو مل کر ایک مرکز کے ماتحت ہو کر ملکی استحکام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، افسوس کہ ملک میں ایسا کوئی رجحان نہیں پایا جاتا ۔
نئی اور بونی سیاست نے ملک کو غیر مستحکم کر رکھا ہے جبکہ پرانی سیاست گری خوار ہے ، اور زمیں میر وسلطان سے بیزار ہے ، پرانے سیاست داں بھی دور اندیشی اور مستقل مزاجی سے محروم نظر آتے ہیں ، ملکی سطح پر سوچنے اور مستقبل کی منصوبہ سازی سے عاری مبینہ سیاست ملک کیلئے انتہائی خطرناک صورتحال کی تصویر کشی کر رہی ہے ۔
پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل مروت اڈیالہ جیل میں اپنے قائد سے اک عرصہ بعد ملے ان کا کہنا تھا کہ میں نے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملایا تو انہوں نے مجھے گلے لگا لیا ، بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صرف ہاتھ ملایا تھا گلے نہیں لگایا ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی میں ایک دوسرے کے خلاف کس قدر شدید نفرت و اختلافات پائے جاتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کے اندرونی اختلاف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملک کے ز یرک اور منجھے ہوئے سیاستدان مولانا فضل الرحمن نے ماضی کے تجربے سے سیاسی اتحادوں کے نتیجے میں چلنے والی تحریکوں کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزید کسی کو شرمندہ کرنا اور نہ خود ہونا چاہتے ہیں ، لہذا اتحاد کے بغیر اپنی تحریک چلائیں گے ،مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن اور اتحادی سیاست کو خیر باد کر دیا ، اور وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے دوسروں کو طاقت نہ دینے کا عہد کر لیا ہے اس طرح پاکستان تحریک انصاف سے ان کی اتحادی سیاست کی چہمگویوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ، لہٰذا انہوں نے اسد قیصر کی سربراہی میں جو کمیٹی بنائی تھی وہ غیر فعال ہو گئی ہے۔
پرانے اور تجربہ کار سیاست داں ملکی مفاد کو پس پردہ ڈال کر ذاتی مفاد میں اتحادوں کے فیصلے کریں اور ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو اسے سیاسی نابالغ ہونے کے زمرے میں دیکھا جاتا ہے ، سیاسیات اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے علم سیاسیات سے مراد ریاست کا علم ہے ، موجودہ دور میں سائنس اور تیکنالوجی کی ترقی کے باعث ریاست کی ہیت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں چناچہ ان تبدیلوں کے باعث علم سیاسیات بھی ارتقائی منازل طے کر رہا ہے ، ارسطو کے نقطہ نظر میں علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے ، دور جدید کے ماہرین علم سیاسیات کی تعریف میں مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں بعض علم سیاسیات کو ریاست کا علم قرار دیتے ہیں اور بعض حکومت کا علم جبکہ بعض مصنفین علم سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم گردانتے ہیں ۔
سر دست پاکستان میں نہ تو سیاست ہے اور نہ ہی سیاسیات کا علم رکھنے والے افراد ذاتی اناء اور کارکنوں کی تعداد کے بل بوتے پر جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ سیاست نہیں بلکہ جبر ، دھونس ، دھمکی ، احتجاج،دھرنے اور لانگ مارچ تک محدود سطحی سوچ رکھنے والے طبقات ہیں ، پاکستان میں سیاسی صورتحال کبھی اتنی سنگین نہیں تھی جتنی کہ اب ہے ،ملک کی معیشت دیوالیہ کی صورتحال سے دوچار ہے ، معاشرہ سیاسی طور پر تقسیم کا شکار ہے ، ملک میںدہشتگری کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں ، اور مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ، غریب عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا ،ایسے حالات میں جب کہ ملک شدید مالی مسائل میں گھرا ہوا ہے سیاست دانوں اور اداروں میں اختیارات کی جنگ نے ملکی استحکام کو مجروح کر دیا ہے ۔
ان عوامل کی وجہ سے پاکستان کی معیشت انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کر چکی ہے ، زرمبادلہ کے زخائر جنہیں ایندھن سمیت دیگر بر آمدات کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، وہ کئی دہائیوں سے سب سے کم ترین سطح پر زوال پذیر ہیں ، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا موجودہ سیاسی جماعتوں کی اناء پاکستان کو تقسیم کر رہی ہے ، جب کہ پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور ملک میں اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں نا قابل برداشت اضافہ ہو رہا ہے ۔
سطحی سوچ کے علمبردار اور ذہنی پسماندہ سیاسی ورکرز بونی سیاست کا سرچشمہ ہیں جس سے ملک غیر مستحکم ہو رہا ہے ، اور موجودہ سیاست دان عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں ،ایسی صورتحال میں جب کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور حکومتی پالیسیوں میں تسلسل کے فقدان کی وجہ سے سرمایاکاری رکی ہوئی ہے اور کاروباری طبقے کا اعتماد بھی بری طرح مجروح ہوا ہے ، جس سے صنعتوں کی پیداورای صلاحیت اور ایکسپورٹس میں کمی رونما ہونے کے ساتھ بیروز گاری میں اضافہ ہوا ہے ،ملک میں جاری مسلسل بونی سیاسی انتشارکی وجہ سے ملکی معیشت پر نہایت مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
سیاسی استحکام سے حکومتی اور سیاسی نظام بلا رکاوٹ اور ہموار رہنا بہت ضروری ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کا قائم رہنا ملکی مفاد میں بہت ضروری امر ہے ، لیکن سیاسی جماعتوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام ،انتشار اور بے یقینی کی ایسی صورتحال پیدا کر رکھی ہے کہ جس سے ملکی معیشت کے تمام شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ،پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی بالا دستی کا مرہون منت ہے ، لہذا پارلیمنٹ اور مقننہ بونی سیاست کے خاتمے پر سخت قانون سازی کرے تاکہ ملک کی معیشت اور استحکام بہتر ہو سکے۔ 
 

ای پیپر دی نیشن