قاضی غیاث الدین جانباز

Aug 25, 2024

جمیل اطہر قاضی

 یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس قبرستان میں ایک مجذوب آکر ٹھہرا، پہلے تو وہ قبروں کے مابین گھومتا پھرتا تھا پھر اس نے ایک وہاں چار دیواری کھڑی کرکے ایک مزار نما احاطہ بنا لیا اور اس پر جھنڈے لہرانے لگے ۔یہ مجذوب یہ سب کچھ کرکے یہاں سے چلا گیا۔ جب وہ اس قبرستان میں رہتا تھا اور جانباز صاحب کسی جنازے میں شرکت کے لئے وہاں جاتے تو وہ انہیں ابا جی کہہ کر بُلا تا اور جانباز صاحب بھی انہیں اپنے گھر بُلا کر بڑے اشتیاق سے کھانا کھلاتے۔ اس کے منہہ سے رالیں ٹپک رہی ہوتی تھیں اور یہ خود اس کے منہہ میں نوالے ڈالتے تھے۔ انتقال سے چند روز پہلے جانباز صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ مجذوب ان سے کہہ رہا ہے کہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں آپ آئیں اور میرے پاس ہی ٹھہریں، جانباز صاحب کو ابدی آرام گاہ اسی مزار نما احاطے میں ملی۔
مئوقر انگریزی روز نامہ ’’ڈان‘‘ نے غیاث الدین جانباز کے انتقال پر ایک تعزیتی رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ صحافت پلٹ سیاست دان قاضی غیاث الدین جانباز کو سپرد خاک کردیا گیا ۔ ان کا گزشتہ روز 73 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا ۔ جانباز کی موت پر سوگ کے لئے سارا شہر بند رہا اور جب تک نماز جنازہ ادا نہیں کردی گئی کسی شخص نے اپنی دکان نہیں کھولی ان کی نماز جنازہ میں حاضری کا منظر بھی دیدنی تھا ۔ شریک ہونے والوں میں سابق صوبائی وزیر حاجی محمد اسحاق ، ایم این اے جنید انور، سابق ارکان صوبائی اسمبلی میاں محمد رفیق۔ چوہدری نسیم احمد اور جاوید اکرم، عوامی ورکرز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فاروق طارق، عوامی نیشنل پارٹی کے رانا لیاقت علی، مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر جناب حمزہ کے صاحبزادے اسامہ حمزہ، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نذیر رضا ، سیکرٹری جنرل عبدالمنعم اوتل، سابق ضلع ناظم اور ایم این اے چوہدری عبدالستار اور چوہدری محمد اشفاق ،مولانا عبداللہ لدھیانوی اور مولانا منعم صدیقی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ 
جانباز صاحب اپنی زندگی کے آخری حصے میں روزنامہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے رہے۔ ایک مرتبہ مجیدنظامی مرحوم نے اُن سے میرا رشتہ دریافت کیا اور ان کی تحریروں پر اپنی خوشنودی ظاہر کی۔
جانباز1940ء میں مشرقی پنجاب کے قصبہ سرہند میں پیدا ہوئے جانباز کا خاندان قیام پاکستان کے موقع پر سرہند سے ٹوبہ ٹیک سنگھ منتقل ہوا پھر 1950 ء میں جانباز کے والد قاضی نصیر الدین سرہندی کاروبار کے سلسلے میں کراچی چلے گئے اور جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی حیثیت سے شہرت پائی۔ پانچ سال بعد یہ خاندان دوبارہ ٹوبہ ٹیک سنگھ آگیا جہاں جانباز کے لئے استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد ان کی منتظر تھی ۔ ایوب خان کے مار شل لاء میں جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے ایک فارم ہائوس کے مزارعین کو کسی جواز کے بغیر بے دخل کیا گیا تو جانباز نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی پاداش میں انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ انہوںنے اپنے سیاسی رفقا سے مل کر 23 مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک تاریخی کسان کا نفرنس کا انعقاد کیا ، پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اور اس کے بعد ترقی پسند وں کا ایسا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اس کانفرنس سے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے بھی خطاب کیا ۔ اس میں ایک مقرر مسیح الرحمن عرف جادو میاں بھی تھے جو بعد میں بنگلہ دیش کے نائب وزیر اعظم بھی بنے مسیح الرحمن نے اپنی تقریر میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کو للکارا اور کسی لگی لپٹی کے بغیر انہیں ملک کا غدار قرار دیا ۔ اس تقریر کے نتیجے میں مسیح الرحمن اور کسان کانفرنس کے منتظمین میں سے قاضی غیاث الدین جانباز اور چوہدری فتح محمد کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔ کافی عرصہ بعد جانباز نے نیشنل عوامی پارٹی سے اپنا راستہ الگ کرلیا اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے طویل عرصہ ممبر بھی رہے ۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی کی انہیں بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران انہیں ایک خود ساختہ مغل پورہ بم کیس میں ملوث کردیا گیا انہیں گرفتار کرکے شاہی قلعہ لے جایا گیا جہاں ان پر بے رحمانہ تشدد ہوتا رہا۔جانباز نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن لڑے، انہوںنے جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کا مقابلہ کیا اور قومی اسمبلی کی نشست پر64 ہزار سے زائد ووٹ لئے لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی 1997 میں انہوںنے صوبائی اسمبلی کی نشست پر جنرل ضیاء الحق کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر انوار الحق کا مقابلہ کیا اور آزاد امیدوار ہونے کے باوجود ان کے مقابلے میں20 ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن اس بار بھی انہیں ہرادیا گیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان کو اسمبلیوں میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔1999ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی انتظامیہ نے شور کوٹ بازار میں کئی دکانیں گرانے کا فیصلہ کیا لیکن جانباز دکانداروں کے حق میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور انتظامیہ کو اپنا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔ 2011ء میں بجلی کی ناروااور غیر منصفانہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف جانباز نے اپنی نہایت خراب صحت کے باوجودفیسکو کے دفاتر کے سامنے بھوک ہڑتال کردی اور اس امر پر مصررہے کہ خواہ انہیں موت لے جائے لیکن وہ لوڈ شیڈنگ میں کمی کرائے بغیر اپنی بھوک ہڑتال ختم نہیں کریں گے، بالآخر فیسکو حکام کو ان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کرنا پڑا جس میں فیسکو حکام نے شہریوں کو یقین دلایا کہ وہ آئندہ زیادہ سے زیادہ 11 گھنٹے بجلی بند رکھیں گے جب کہ ان کی بھوک ہڑتال سے پہلے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے سے بھی بڑھ گیا تھا ۔
………………… (ختم شد)

مزیدخبریں