جمہوریت حقیقی عوامی رائے کی اکثریت سے مستحکم ہوتی ہے اور اس کا بنیادی یونٹ وہ بلدیاتی ادارے ہوتے ہیں جو ہمارے ہاں منتخب نمائندوں اور حکومتوں کی بجائے آمروں کو زیادہ پسند ہیں۔ 77 سال کا جائزہ لیں تو جنرل صدر محمد ایوب خان کے بی۔ ڈی ممبران سے زبردستی کے صدر پرویز مشرف تک یہ نظام پھولتا پھلتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی کہ جمہوری دور میں بلدیاتی نظام کو کبھی وہ توقیر نہیں ملی جو ملنی چاہیے بلکہ ایک دور میں ایسا بھی ہوا کہ نظام موجود ہونے کے باوجود نہ فنڈز ملے اور نہ ہی ان کا حقیقی مقام، یہی نہیں انہیں اپنی صوبائی حکومت کے خلاف فنڈز کی فراہمی کے لیے احتجاج بھی کرنا پڑا ، جمہوریت بظاہر تو خالصتا عوامی نظام ہے اس میں بادشاہت، شہزادوں اور نوابوں کی کوئی گنجائش نہیں لیکن ہماری جمہوریت میں ایک نوابزادہ ایسا بھی ہمیشہ اہم رہا کہ اسے عوامی جدوجہد کے باعث بابائے جمہوریت بھی کہا گیا اس کا اور پاکستان کا تعلق وجود سے پہلے کا بھی رہا وہ مجلس احرار کے اس جلسے میں بھی تھے جب بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جنا ح کو مخالفین نے کافر اعظم گردانا اور وہ اس جلسے میں بھی اسٹیج پر ہی بیٹھے تھے جس میں ایئر مارشل اصغر خاں نے نعرہ لگایا تھا کہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ کے پْل پر پھانسی دیں گے۔
وطن عزیز میں جب جب جمہوریت کی تحریک چلی وہ قومی اتحاد کی ہو یا کہ ایم۔ آ ر ڈی کی، نوابزادہ ہمیشہ سب سے آ گے نظر آئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ان کی جمہوری پارٹی بھی فرزند راولپنڈی شیخ رشید کی طرح تانگہ پارٹی سمجھی جاتی تھی لیکن وہ جمہوریت ،جمہوری اقدار اور جمہوریت کو فعال کرنے میں یکتا تھے اسی لیے آ ج سیاسی عدم استحکام کے دور میں نوابزادہ ،جمہوریت اور حقہ یاد آ رہا ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کی ترکی روایتی ٹوپی بھی خصوصی پہچان تھی اس لیے کہ موجودہ دور میں ترکی ٹوپی بھی غائب ہو چکی ہے۔ نوابزادہ صاحب کی نشست و برخاست، گفتگو، دانشوری، سخنوری اور سیاسی بصیرت زندگی کے ہر دور میں منفرد تھی۔ کٹھن ترین حالات میں بھی سیاسی جادوگری سے معاملات نہ صرف سلجھاتے تھے بلکہ دیر پا حل بھی نکالنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مظفرگڑھ سے تعلق لیکن نہ صرف رنگ سرخ و سفید بلکہ پان سے منہ بھی لال، سیاسی جوڑ توڑ کے ایسے ماہر کی سیاسی مذاکرات میں بڑے بڑوں کے منہ لال، نیلے، پیلے کردیتے بلکہ چھکے چھڑا دیتے تھے۔
اس وقت ان کے پائے کا دوسرا کوئی لیڈر نہیں تاہم سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین میں ان کی صحبت کا اثر پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی صحت ایسی نہیں کہ وہ موجودہ بحران میں سرگرم ہو سکیں۔ پھر بھی حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ کوئی ایسی بھاری بھرکم شخصیت ایک قدم آگے بڑھے اور تمام سیاست دانوں کو مفاہمتی اور بہتر مستقبل کے حوالے سے قومی دھارے میں لا سکے، یہ کام ناممکن نہیں لیکن آ سان بھی نہیں ،صدر مملکت آ صف علی زرداری بھی ایسی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں جبکہ وہ موجودہ منصب کے حوالے سے ایسا سیاسی کردار ادا نہیں کرسکتے جوایوان صدر سے باہر رہ کر سکتے تھے۔
مملکت کے حوالے سے موجودہ دور خاصا پریشان کن ہے۔ معاشی بحران کا خاتمہ بھی اسی عدم استحکام سے ایک حد تک جڑا ہوا ہے قومی ادارے فوج ،عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہ صرف کمزور کر دیے گئے بلکہ متنازعہ بنا کر بدعتمادی کی فضا کو فروغ دیا گیا۔ معاملات اس قدر الجھائے گئے کہ سلجھانے کے لیے کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تھی، مصلحت پسندی میں انتظار کی گھڑیاں طویل ہوئیں تو سوشل میڈیا وار نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کوئی نہیں جانتا کہ کون انتشاری؟ کون فسادی؟ افواہوں کا بازار گرم, جھوٹے پراپیگنڈے سے حالات کو یکسر بگاڑ دیا گیا۔ 9
مئی کے سانحے نے بھی جلدی پر تیل چھڑکا, پھر رہی سہی کسر الیکشن 2024ء پر فارم 45 ,47 کی تکرار نے پوری کر دی۔ دھاندلی ہنگامہ, منیڈیٹ چوری کا ڈرامہ, 180 نشستوں کا دعوی لیکن ٹربیونل میں کیسز نہ ہونے کے برابر, مقبول جماعت کے مقبول لیڈر پر مقدمات کی بھرمار ہوئی تو سہولت کاری بھی اسی طرح سے ملی, ادارے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہو گئے۔ سری لنکا ,کینیا اور بنگلہ دیش کے حالات سے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن ذمہ داروں نے مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت فیصلے کر کے ریاست کو بچا لیا۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی سیاست غیر مقبول فیصلوں سے کمزور پڑ گئی۔ ایسے میں ایک بڑی گرفتاری اوراس کے رد عمل اور شواہد سے یہ راز فاش ہو گیا کہ ایک مفاد پرست ٹولے نے اپنے من پسند نتائج نہ ملنے پر فوج اور مملکت کو داؤ پر لگا دیا۔ یہی نہیں یہ بھی پتہ چلا کہ جدید ترین سہولت کاری اور سابق دور اقتدار میں تمام اداروں اور شعبہ جات میں ایسی تعیناتیاں کی گئیں اور من پسند لوگوں کو ترقیاں دلوائی گئیں جن سے مستقبل کے منصوبوں کی کامیابی کا 100 فیصد نتیجہ حاصل کرنا مقصد تھا، بڑی غیر معمولی گرفتاری سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس تمام تر منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے خصوصی تعیناتی ،مہروں کے علاوہ سوشل میڈیا بریگیڈ سے ہر ممکن فائدہ اٹھایا گیا جن کی نشاندہی ہو گئی انہیں اداروں کی مدد سے بیرون ملک بھجوا دیا گیا۔ بے دریغ ملکی اور غیر ملکی فنڈز استعمال کیے گئے اور ریاست کے اجتماعی مفاد کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا۔ اب،، فائنل راؤنڈ ،،شروع ہو چکا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے اور چیخیں آ سمانوں تک سنائی دے رہی ہیں لیکن کوئی مفاہمت کرانے والا نہیں ،سارا کھیل کھلواڑ جمہوریت کے نام پر کھیلا گیا۔
نوابزادہ عالم اروا ح میں حقہ گڑگڑاتے ہوئے ہمارا تماشہ دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے کہ،، بے وقوفو جمہوریت صرف جمہوریت ،جمہوریت کا شور مچانے سے نہیں آ تی اس کے لیے کچھ گر سیکھنے پڑتے ہیں، جدوجہد کرنی پڑتی ہے، جو تم نے مارشل لاؤں کی مدح سرائی میں سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ صرف ایک دوسرے کو جمہوریت کا جھانسہ دے کر آ گے بڑھنے کی ٹھان لی اور ان مفاد پرست حربوں کا رزلٹ آ ج دیکھ کر سب گھبرا رہے ہو ؟لیکن جمہوریت کا حقیقی ثمر حاصل کرناھیتوابھی بھی سر جوڑ کر ملک وملت کے لئے بیٹھ جاؤ۔۔۔ مجھے پتہ ھے تم میں کچھ لوگ اقتدار کے نشے میں ایسے دھت ہیں کہ وہ جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے بھی جمہوری انداز اپنانے کو تیار نہیں،حقیقت یہی ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاست میں رھتے ھوئے نکالا جائے ورنہ،، چڑیاں چگ جائیں گی کھیت، اورجگ ھنسائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آ ئے گا، آ ئی سمجھ کہ پچھلی بھی گئی۔۔۔تمہاری قسمت؟؟؟