چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی شریعت اپیلیٹ بنچ نے دو افراد کے قتل اور زنا بالرضا کے الزام میں نامزد ملزم کی اپیل کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 18 ستمبر 2018ء کو اپیل منظور کی۔ اپیل کا فیصلہ کرنے میں چھ سال کی تاخیر پر معذرت خواہ ہیں۔ انصاف کی فراہمی کیلئے ججز کو بھی اپنے فرائض کا علم ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ کا شریعت بنچ طویل عرصے تک غیر فعال رہا۔ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے غیر فعال رہنے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی عدالت اور سپریم کورٹ کے ججز کو فوجداری مقدمات سننے کیلئے دستیاب ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انصاف کی شفاف فراہمی کسی بھی ملک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے کیونکہ انصاف کا نظام ہی جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی پاسداری اور سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے۔ جب انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں تو عدالتی نظام پر عوام کا بھی اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے انہیں حق بات کہنے اور سننے کا حوصلہ ملتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوتے ہی عدالتی نظام میں اصلاحات کا عزم باندھا جس کے تحت اس وقت عدالتی نظام میں جو احسن روایات سامنے آرہی ہیں‘ ان کا کریڈٹ یقیناً چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہی جاتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سب سے پہلے علامتی طور پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ٹرائل کو غیرشفاف قرار دیکر عدالتِ عظمیٰ پر لگے ایک بڑے الزام کا ازالہ کیا اور عدل گستری میں ایک اچھی روایت قائم کی۔ فاضل چیف جسٹس نے نظام عدل میں پائے جانے والے کئی نقائص کی نشاندہی بھی کی اور عدالتی نظام میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہ کرنے کا عندیہ دیا جس پر وہ سختی سے کاربند بھی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مبارک ثانی ضمانت کیس میں بھی انکی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اپنے فیصلوں سے قادیانیوں سے متعلق معترضہ پیراگراف حذف کرکے اس کا ازالہ کیا۔ گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی شریعت اپیلٹ بنچ نے دو افراد کے قتل اور زنا بالرضا کے الزام میں نامزد ملزم کی اپیل کا تحریری فیصلہ 6 سال کی تاخیر سے صادر کرنے پر بھی معذرت کی۔ غلط فیصلوں کا ازالہ کرکے عدالتی نظام میں جو اچھی روایات سامنے آرہی ہیں‘ امید کی جاسکتی ہے کہ اس سے نظام انصاف پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا‘ سائلوں کو فوری اور سستا انصاف ملے گا۔ زیرالتواء مقدمات کو نمٹانے کیلئے جو پالیسی بنائی جارہی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ اس پالیسی کے تحت گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی عدالت اور سپریم کورٹ کے ججز کو فوجداری مقدمات سننے کا پابند کیا جا رہا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کیلئے دوسرے اداروں کو بھی اس قابلِ قدر روایت کی تقلید کرنی چاہیے۔