معیشت کی بہتری یا بحالی کے نام پر حکومت کئی ایسے فیصلے اور اقدامات کررہی ہے جن کی وجہ سے غریب عوام براہِ راست متاثر ہورہے ہیں۔ اگر عوام کے ساتھ ساتھ خواص پر بھی کچھ بوجھ ڈالا جاتا تو ممکن ہے عام آدمی کی طرف سے یہ سب برداشت کرلیا جاتا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ معیشت کو سدھارنے کے لیے ساری قربانیاں صرف اور صرف عوام ہی سے لی جارہی ہیں، اور قربانیوں کا سلسلہ اب شروع نہیں ہوا بلکہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اور قابلِ قیاس مستقبل میں اس میں کمی آنے یا اس کے ختم ہونے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ دوسری طرف، اشرافیہ کو سرکاری خزانے میں مراعات و سہولیات دینے کا سلسلہ بھی زور شور سے جاری ہے اور اول الذکر معاملے کی طرح یہ بھی مستقبل قریب میں تو گھٹتا یا ختم ہوتا نظر آتا۔ اندریں حالات، عوام کا حکومت اور ریاست سے بیزار ہونا ایک یقینی امر ہے جس کا واضح اظہار ہمیں مختلف مواقع پر اور مختلف شکلوں میں دکھائی دیتا ہے۔
موجودہ حکومت عوام کے معاشی بوجھ کو بڑھانے کے لیے جو اقدامات کررہی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت صنعت و پیداوار کے اجلاس میں سیکرٹری صنعت و پیداوار سیف انجم نے کہا کہ رائٹ سائزنگ کے تحت وفاقی حکومت یوٹیلیٹی سٹورز کو بند کرنے کا سوچ رہی ہے، رائٹ سائزنگ کمیٹی کے فیصلے کابینہ کو بھجوائے جائیں گے۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے کہاکہ یوٹیلٹی سٹورز سے متعلق وزارت صنعت و پیداوار عمل درآمد کے لیے ایکشن پلان دے گی، ملازمین کے لیے پیکیج پر کام کیا جا رہا ہے، حکومت مالی مشکلات کے باعث نجکاری کر رہی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز ملازمین کو دوسرے اداروں میں بھیجنے پر بھی کام کر رہی ہے۔ سینیٹر سیف اللہ نیازی کے سوال کے جواب میں سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ حکومت غیر ضروری کاروبار سے باہر نکلنا چاہتی ہے، یوٹیلٹی سٹورز پر ریلیف دینے سے مقابلے کی فضا ختم ہو جاتی ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق، وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کو بند کرنے کے لیے 2 ہفتے کا وقت دیا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کی انتظامیہ کے مطابق، انھیں اشیائے خور و نوش مہیا کرنے والی کمپنیوں سے لین دین کے معاملات نمٹانے کے لیے 2 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے 11 ہزار سے زائد ملازمین اور ان کے خاندانوں کا مستقبل داوؤ پر لگ گیا ہے۔ ان ملازمین میں سے 6 ہزار مستقل ہیں جبکہ باقی کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ہیں۔ یو ٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمین اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سیکرٹری آل پاکستان ورکرز الائنس عاطف شاہ نے کہا ہے کہ حکومت یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی 20 ارب روپے کی مقروض ہے، کارپوریشن حکومت کے خزانے پر بوجھ نہیں۔ حکومت کو گروسری کی مد میں کمپنیوں سے سالانہ 120 ارب ٹیکس موصول ہوتا ہے، 25 ارب صرف یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن ادا کرتی ہے جو تقریباً 18 فیصد ہے۔ ہم حکومت سے پیسے نہیں لیتے، تمام ملازمین کی تنخواہیں سیلف جنریٹڈ ہیں۔ ملک بھر میں 4000 سے زائد مستقل سٹورز جبکہ 1500 فرنچائزز ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ آل پاکستان ورکرز الائنس ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کرے گا۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی آل پاکستان نیشنل ورکرز یونین سی بی اے کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں یونین کے مختلف عہدیداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کارپوریشن کو بند کرنے کے فیصلے کے حوالے سے مشاورت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کیا جائے گا اور سوموار سے اس سلسلے کا آغاز کیا جائے گا۔
عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے لیے وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والا ریلیف بھی بند کر دیا ہے جس کے بعد اب غریبوں کو یوٹیلٹی سٹورز سے آٹا، چینی اور گھی اب مہنگے داموں ہی خریدنا پڑیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جانے والی یہ سبسڈی غیر علانیہ طور پر بند کی گئی ہے۔ یوٹیلٹی سٹور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر دستیاب اشیاء پر سبسڈی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت چینی 109 روپے تھی جو اب 155 روپے کلو کر دی گئی ہے۔ اسی طرح، 650 روپے میں ملنے والا 10 کلو آٹے کا تھیلا اب 1500 روپے کا ملے گا جبکہ 380 روپے والا گھی 450 روپے کلو کر دیا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اس فیصلے سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ اسے غریب عوام کے مسائل اور پریشانیوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ افسوس ناک اور قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے جلسے جلوسوں کے دوران جو سیاستدان غریب آدمی کو ریلیف دینے اور اس کے مسائل کم کرنے کی باتیں کرتے تھے اب وہی آگے بڑھ بڑھ کر ایسے اقدامات اور فیصلوں کے حق میں دلیلیں دے رہے ہیں جن کے ذریعے عوام کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ کئی دہائیوں کے تجربات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عوام پر بوجھ ڈالنے سے ملک کے اقتصادی مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی معیشت بہتری کی جانب مائل ہوسکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی ان مراعات و سہولیات کو ختم کرنا ہوگا جن کا مجموعی حجم قومی بجٹ کا قابلِ ذکر حصہ بنتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب تک حکومت یہ مراعات و سہولیات ختم نہیں کرتی تب تک ملک کے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن بند کرنے کا نامناسب حکومتی فیصلہ
Aug 25, 2024