قائداعظم کا سب سے بڑا وصف صادق اور امین ہوتا ہے اور یہی وہ اوصاف ہیں جن سے اقبال کا مرد مومن بنتا ہے۔ قائداعظم اقبال کے مرد مومن‘ خضر وقت اور خودی کے پاسبان ہیں۔ انہی اوصاف نے قائداعظم کو اپنے دور کا کامیاب ترین فرد فرید بنایا اور انہوں نے جو چاہا‘ وہ پایا جبکہ قائداعظم کی قومی و ملی حکمت عملی ”ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم“ ہے۔ صداقت و امانت وہ خصائل ہیں جو کسی بھی مسلمان کو محمد مصطفی کا قرب اور عقیدت اور محبت عطا کرتے ہیں۔ قائداعظم ان خوش قسمت احباب میں شامل ہیں جن کو زیارتِ رسول حالت بیداری میں میسر رہی۔ قائداعظم نے گول میز کانفرنسز (RTC) کے بعد ترکِ سیاست اور لندن میں قیام کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران قائداعظم کو نبی¿ محترم محمد مصطفی کی زیارت نصیب ہوئی جنہوں نے حکم دیا کہ ’فجناح واپس ہندوستان جا¶ اور ہندی مسلمانوں کی تحریک آزادی میں حصہ لو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ انشاءاللہ کامیابی ہو گی۔“ قائداعظم کو یہ نعمت صادق اور امین ہونے کی نسبت سے میسر ہوئی کیونکہ ہمارے پیغمبر محمد مصطفی نبوت سے قبل اپنے معاشرے میں الصادق اور الامین کے اوصاف سے معروف تھے۔1909ءمیں منٹو مارلے سکیم کے تحت مرکزی حکومت بنی۔ قائداعظم بمبئی کے حلقے سے منتخب ہو کر اسمبلی کے رکن بنے‘ قائداعظم کی امانت‘ صداقت‘ راست روی‘ راست فکری اور بے لوث عوامی خدمت نے حلقے کے ووٹرز کا 38 سال اعتماد بحال رکھا کیونکہ قائداعظم قیام پاکستان (14 اگست 1947ئ) تک مذکورہ بمبئی حلقے سے مسلسل منتخب ہوتے رہے۔ بعض اوقات قائداعظم وطن سے باہر تھے مگر ووٹرز نے آپ کو ہی منتخب کیا۔ حلقے میں ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور مسلمان آبادی تھی اور مشترکہ انتخاب Joint electorate کی بنیاد پر ووٹ ڈالا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت قائداعظم سارے ہندوستان میں واحد سیاسی و قانونی شخصیت تھے جو طویل ترین انتخابی نمائندگی اور قیادت کا تجربہ رکھتے تھے۔ کسی غیر مسلم شخصیت کو بھی قائداعظم جیسا انتخابی نمائندگی کا تجربہ نہ تھا۔ بلکہ جس وقت کرم داس گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان آئے تو مہاتما گاندھی کی سیاسی اور عوامی منہ دکھائی (تعارفی) کی تقریب بمبئی میں منعقد ہوئی اور اس تقریب کی صدارت کیلئے قائداعظم سے درخواست کی گئی کیونکہ قائداعظم جملہ بالا اوصاف کے باعث اپنے دور کے ہر مسلم اور غیر مسلم کیلئے مقبول ترین اور معتمد ترین فرد فرید تھے۔
قائداعظم دیپالپور پنجاب کے راجپوت گھرانے کے فرد تھے۔ آپ کا گھرانہ کھشتری ہندو تھا۔ آپ کے بزرگوں نے حضرت خواجہ مجدد الف ثانیؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپ کے بزرگ تلاش معاش میں گجرات کاٹھیا وارڈ چلے گئے۔ جہاں آغا خانی تاجروں سے تعلقات کی بنیاد پر ہفت امامی شیعہ ہو گئے۔ قائداعظم نے 1921ءکی مردم شماری میں اپنا مذہب اثناءعشری شیعہ لکھا۔ بعدازاں تمام سرکاری مردم شماری میں اپنا مذہب فقط اور فقط اسلام لکھا۔ کیونکہ اسلام کسی سابقے اور لاحقے کا محتاج نہیں۔ قائداعظم کی وصیت کے مطابق‘ ان کا نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھایا اور تدفین کے وقت فرمایا کہ ”قائداعظم درویش اور مجاہد شہنشاہِ حضرت اورنگزیب عالمگیر کے بعد ہندوستان کے سب سے بڑے اور عظیم ترین مسلمان ہیں جن کو آج ہم سپرد خاک کر رہے ہیں۔“
قائداعظم کا ایمان ابراہیمی تھا جو قانونی براہین و بینات سے ایقان کے مقام کو پہنچا۔ قائداعظم کے ایمان سے ایقان کی کہانی عشق رسول ہے۔
آپ نے 16 برس کی عمر میں لنکنز ان میں داخلہ اس بنیاد پر لیا کہ عالمی قانون ساز شخصیات میں محمد مصطفی کا نام نامی بھی تھا۔ آپ نے پہلا سیاسی مقدمہ مسلم اوقاف کا جیتا جو بعدازاں مسلم اوقاف بل بنا اور ہندی مسلمانوں کو اس دور میں کروڑوں کی جائیداد واپسی ملی ہے یہ جنگ آزادی 1857ءکے بعد مسلمانان ہند کی بہت بڑی جیت تھی جس کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی نے فرمایا کہ مسلم اوقاف کا مقدمہ ایسا وکیل جیت سکتا تھا جس کو فقہ اسلامی پر مکمل عبور حاصل ہو اور قائداعظم ایسی شخصیت ہیں جن کو قرآن و سنت اور فقہہ اسلامی پر مکمل ادراک حاصل تھا۔
قائداعظم محمد مصطفی کے حکم پر ہندوستان واپس آئے۔ یہ 1935ءکی آئینی اصلاحات کا دور تھا۔ قائداعظم نے علامہ اقبال اور دیگر ہندی مسلمانوں کے ساتھ مل کر آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کی۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس (23 مارچ 1940ئ) منعقدہ لاہور میں آزاد اسلامی ریاست ”پاکستان“ کا مطالبہ کیا۔ جبکہ حکیم الامت علامہ اقبال (دسمبر 1930ئ) خطبہ الہ آباد میں آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا نظریہ دے چکے تھے۔ جو مشرقی اور مغربی متحدہ اسلامی ریاست کی نشاندہی کرتا تھا۔ قائداعظم نے ہندی مسلمانوں کو ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم کی بنیاد پر منظم اور متحرک کیا اور عالم اسلام کی سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی ریاست پاکستان بنائی۔ قائداعظم نے پاکستان کے آئین کے بارے میں 25 جنوری 1948ءکو بایں الفاظ فرمایا کہ پاکستان کا آئین شریعت اسلامی کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔“ قائداعظم متحدہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے مگر مغربی پاکستان میں جھنڈا لہرانے کی سرکاری تقریب میں مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مشرقی پاکستان میں مولانا ظفر احمد عثمانی اور پنجاب میں مولانا احمد علی لاہوری سے درخواست کی گئی کہ وہ جھنڈا لہرائیں۔ قائداعظم کو شرح صدر تھا کہ پاکستان تدبیر الٰہی اور محمد مصطفی کی روحانی حکمت عملی کا ثمر ہے۔ لہٰذا پاکستان قائم رہے گا اور اسے کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔
قائداعظم .... شخصیت اور خدمت
Dec 25, 2012