آج قوم یومِ قائد ان حالات میں منا رہی ہے کہ پاکستان کے وجود کے روئیں روئیں سے خون رس رہا ہے۔ ملک کا کوئی حصہ دہشت گردی اور بارود کی بُو سے محفوظ نہیں۔ ایک طرف ڈرون پاکستان کی حدود میں گھس کر پاکستانیوں کا خون بہا رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ کراچی، بلوچستان اور فاٹا سلگتے سلگتے بھڑک اُٹھے اور اب بدامنی اور قتل و غارتگری کا الا¶ بن چکے ہیں۔ گذشتہ دور میں پاکستان کو غیروں کی جنگ میں جھونک دیا گیا تو موجودہ حکومت اس سے بھی بڑھ کر اس جنگ میں حقِ نمک ادا کر رہی ہے، خمیازہ معصوم بچوں اور خواتین سمیت امن کی خواہش رکھنے والے بے گناہ افراد کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حکومتی سطح پر اصلاح کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ معاملات جس طرح چل رہے تھے اُسی طرح آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے مکھی پہ مکھی ماری جا رہی ہے۔ خارجہ معاملات کے ساتھ ساتھ داخلہ امور بھی مثالی نہیں۔ بجلی و گیس کی قلت کے باعث معیشت انحطاط پذیر، بیروزگاری کا دور دورہ، مہنگائی کا اُمنڈتا ہُوا طوفان، لاقانونیت کا عر وج‘ کھلی اقربا پروری، کرپشن کو اُصول اور قانون بنا لیا گیا۔ ایک مخصوص طبقہ دھن دولت سمیٹ کر مسرور، غریب اولادیں فروخت کرنے اور خودکشیوں پر مجبور، ملکی سالمیت و سلامتی داو¿ پر لگی ہے۔ قومی وقار نابود، ملکی سلامتی کے ذمہ دار اپنے مفادات تک محدود، ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود، پاکستان کی بقا کے دشمن کے ساتھ تعلقات و دوستی کا فروغ، تجارت کا خبط، وہ بھی خسارے کی، اب اسے پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کا عزم و ارادہ، اس میں کس کو خسارہ کس کا فائدہ؟یہ دیکھ کر قائداعظمؒ کی روح تڑپ رہی ہو گی۔ پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے بجائے اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
قائداعظم وادی¿ کشمیر طاقت کے ذریعے آزاد کرانے کا عزم رکھتے تھے آج کے کرتا دھرتاو¿ں نے اس معاملے سے آنکھیں پھیر لیں۔ اگر کشمیری ایسی بے حسی کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل لیں الحاق پاکستان کے عزم کو عملی شکل دینے کے ارادے سے رجوع کر لیں تو پاکستان کا وجود ہمیشہ کیلئے ادھورا رہ جائے گا۔ شہ رگ دشمن کے انگوٹھے کے نیچے ہو تو زندگی کا دار و مدار دشمن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، وہ سانس لینے دے یا نہ لینے دے۔ آزاد، خود مختار اور باوقار قومیں کیا ایسے حالات میں اپنے اکابرین کا دن مناتی ہیں؟ کہنے کو تو آج کے دور کو سلطانی جمہور کا دور کہا جاتا ہے جمہوریت کے سلطان تو نظر آتے ہیں جبکہ جمہوریت کو دیکھنے کیلئے جادوئی نظروں کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے فوائد ڈاکٹر طاہر القادری نے شمار کراتے ہوئے اسکی افادیت بھی بتا دی۔ جمہوریت کا مطلب قوم کو یرغمال بنانا نہیں، ان تک جمہوریت کے ثمرات پہنچانا ہے۔ ملک اور قوم کے ساتھ جمہوریت کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو رہا؟۔ کیا یہ وہی جمہوریت ہے جس کا دور دورہ بانی پاکستان چاہتے تھے ،ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اہلیت، میرٹ، ہو تو موروثی سیاست میں قباحت نہیں۔ نالائق، کرپٹ اور عیاش اولاد کو سیاسی وارث بنا دینا قائد و اقبال کے پاکستان کی جڑیں ہلا دینے کے مصداق ہے۔ آج اس طرح کی سیاست نے کچھ زیادہ ہی عروج حاصل کر لیا ہے۔ ایوان صدر کو پیپلز پارٹی اپنی سیاست کیلئے استعمال کرتی ہے۔ نون لیگ کم و بیش ایسے ہی مقاصد کیلئے پنجاب ہاﺅس کو استعمال کر رہی ہے۔ قومی وسائل ہر پارٹی اپنے مفادات اور بے جا تشہیر کیلئے لنڈھا رہی ہے۔ ہر پارٹی اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنے اوپر اپوزیشن کا لیبل بھی سجا رہی ہے۔ اپنی پارٹی کے نکتہ نظر کو سامنے رکھ کر عدالتی فیصلوں کی تحسین اور تضحیک کی جاتی ہے۔ ایسے میں واقعتاً جمہوریت کو ریفائن اور پیوری فائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دلدل اور کنویں سے نکلنے کیلئے بیرونی عوامل بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھنور سے کشتی کو قدرتِ کاملہ ہی نکال سکتی ہے۔ ہماری جمہوریت دلدل میں دھنس اور بھنور میں پھنس چکی ہے ،اس سے قدرتِ کاملہ نکالے یا اس سے بیرونی عوامل کوئی تدبیر کریں جو دھنسے اور پھنسے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے اور خصوصی طور پر جب ذمہ دار بھی وہی ہوں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جمہوریت کی کشتی کو دلدل اور بھنور سے نکالنے کی تجاویز دی ہیں جو قابلِ عمل بھی ہیں۔
طاہر القادری آئے اور چھا گئے۔ وہ جس قسم کا اجتماع اور احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے وہ اس میں کامیاب رہے۔ مینار پاکستان کا جلسہ حاضرین اور ڈسپلن کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ نہیں تو لاہور کا سب سے بڑا اجتماع ضرور تھا۔ سیاسی مفادات کی عینک سے دیکھنے والوں نے طاہر القادری کے خیالات و تجاویز اور اسلام آباد کی طرف 4 ملین کے لانگ مارچ کے اعلان پر تنقید ضرور کی ہے۔ حاضرین کی تعداد سے کسی نے انکار نہیں کیا‘ بعض دانشور بلا سوچے سمجھے بولے۔ ایک کو کچھ اور نہیں سوجھا تو ڈاکٹر صاحب کے لہک لہک اور اچھل کود کے بجائے پُروقار انداز میں کرسی پر براجمان ہو کر خطاب کرنے کے عمل اور ان کی شیخ الاسلامی کیپ کو حرفِ تنقید بنایا۔ تحریک انصاف کو شاید اس اجتماع پر باہمی مشاورت کا وقت ہی نہیں ملا تو اس پارٹی کے ترجمان کی تنقیدی پارٹی کے سربراہ کی تحسینی لائن سامنے آئی۔ بڑی پارٹیوں نے بہرحال تنقید ہی کرنا تھی جو کی اور ہوتی رہے گی۔ ایم کیو ایم البتہ بڑی خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ ملین مارچ کی کامیابی میں ایم کیو ایم کا واضح ساتھ اور تحریک انصاف کی طرف سے فی الوقت نرم گوشہ اور چند دنوں میں ایک ہی پلیٹ فارم پر آنے کا امکان اہم عنصر ہو گا۔ جماعت اسلامی بھی اس ایجنڈے کا حصہ بن سکتی ہے۔ طاہر القادری کی عوامی قوت اور لانگ مارچ کے مقصد و ارادے کے پیش نظر ”مقتدر قوتیں“ بھی یقیناً سر جوڑ لیں گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری خود کو سیاست سے دور رکھ کر سیاست کی طہارت کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ سیاست سے نابلد نہیں اور سیاست میں کوئی حرفِ آخر بھی نہیں ہوتا۔ انکو سیاست میں کودنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہُوا تو دو بڑی پارٹیوں کے متبادل ایک تیسری قوت کھڑی کی جا سکتی ہے یا ہو سکتی ہے، جس میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، دفاع پاکستان کونسل‘ ایم کیو ایم اور طاہر القادری کی پرانی عوامی تحریک یا کسی اور نام سے جنم لینے والی پارٹی شامل ہو گی --- بہرحال قائداعظم کا یومِ ولادت، قوم سے وطن عزیز کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کا متقاضی ہے جس میں جمہوریت اسی طرح کارفرما ہو جس طرح قائداعظم چاہتے تھے۔ آخر میں ہم وطنوں کو قائد کا یومِ ودلات مبارک، کرسچین برادری کو کرسمس اور ن لیگ کے متوالوں کو میاں نواز شریف کی سالگرہ مبارک ہو۔
یومِ قائد اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈہ
Dec 25, 2012