اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ جب کسی چیز کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرماتا ہے ”کن“ اور وہ تخلیق ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے عورت (حضرت مریم) سے پیدا کیا۔ تاریخ انسانیت میں یہ قدرت کا نایاب معجزہ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے سولی پر چڑھانا چاہا تو ان کو اللہ رب العالمین نے زندہ آسمان پر اُٹھا لیا۔ اسی تاریخ کو محسن پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بھی ولادت ہوئی اور ان کو برصغیر کے مسلمانوں کا نجات دہندہ بنا دیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا انتخاب اور پاکستان کا قیام عطیہ خداوندی اور رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کا انتخاب تھا۔ تحریک آزادی کے دوران ایسے مسلم رہنما کی ضرورت تھی جو انگریزوں کے قول و فعل اور ہندوﺅں کی چال بازیوں سے واقف ہو کیونکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ابتدائی تعلیم ہندوستان میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم انگریزوں کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز بھی انگلستان سے کیا پھر اپنی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہندوﺅں کی جماعت کانگریس میں رہنے کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ چنانچہ منشاءالٰہی اور منشاءنبوتﷺ کے تحت مسلمانوں کی قیادت کیلئے محمد علی جناحؒ کا انتخاب ہوا۔ علامہ اقبالؒ اور مسلم لیگ کے رہنماﺅں نے بے شمار خطوط لکھے اور رہنماﺅں نے لندن قیام کے دوران ملاقاتیں بھی کیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے ہندوستان آنے کیلئے اصرار بھی کیا لیکن وہ کسی نتیجے پر ابھی پہنچ نہیں پائے تھے کہ ایک دن ان کے ساتھ ناقابل فراموش واقعہ پیش آیا۔
قائداعظمؒ فرماتے ہیں کہ میں لندن میں اپنے فلیٹ میں سویا ہوا تھا، رات کا پچھلا پہر ہوگا۔ میرے بستر کو کسی نے ہلایا، میں نے آنکھیں کھولیں، اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی نظر نہ آیا، میں پھر سو گیا۔ میرا بستر پھر ہلا، میں پھر اُٹھا۔ کمرے میں اِدھر اُدھر دیکھا، کچھ نظر نہ آیا۔ سوچا شاید زلزلہ آیا ہو، کمرے سے باہر نکل کر دوسرے فلیٹوں کا جائزہ لیا تو لوگ نیند کے مزے لے رہے تھے۔ میں واپس کمرے میں آکر پھر سو گیا۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ پھر کسی نے میرا بستر زور سے جھنجھوڑا، میں ہڑبڑا کر اُٹھا۔ پورا کمرہ معطر تھا، میں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ ایک غیرمعمولی شخصیت میرے کمرے میں موجود ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کون ہیں؟آگے سے جواب آیا کہ ”میں تمہارا پیغمبر محمدﷺ ہوں۔“میں جہاں تھا، وہیں بیٹھ گیا، دونوں ہاتھ باندھ لئے۔ فوراً میرے منہ سے نکلا آپﷺ پر سلام ہو میرے آقاﷺ۔ ایک بار پھر وہ خوبصورت آواز گونجی۔ محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوںکو تمہاری فوری ضرورت ہے اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تحریک آزادی کا فریضہ انجام دو، میں تمہارے ساتھ ہوں، تم بالکل فکر نہ کرو، انشاءاللہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگے۔ میں ہمہ تن گوش تھا، صرف اتنا کہہ سکا آقاﷺ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ میں مسرت و انبساط اور حیرت کے سمندر میں غرق تھا کہ کہاں آپﷺ کی ذات اقدس اور کہاں میں اور پھر یہ شرف ہم کلامی یہ عظیم واقعہ میری واپسی کا باعث بنا۔
ابتدائی ایام میں علمائے کرام اور مشائخ عظام نے قائداعظمؒ کے بارے میں کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔ ان میں سے اکثر کی رہنمائی بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کی۔ پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے صاحبزادے اور گدی نشین حضرت پیر سید محی الدین گیلانی عرف بابوجی سرکار کے خیال میں بھی قائداعظمؒ کی ظاہری غیرشرعی شخصیت اور اسلام کے نام پر خطے کا حصول کا پہلو کھٹکنے لگا، اسی دوران بابوجی سرکار اجمیر شریف تشریف لے گئے، وہاں قیام کے دوران ایک مخلص نے آکر آپ سے عرض کی کہ حضرت سرکار دوعالمﷺ کا شرف حاصل کیا ہے، آپﷺ کرسی پر تشریف فرما ہیں، سامنے میز پر ایک فائل پڑی ہوئی ہے۔ چند لمحے بعد پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور آپﷺ فرماتے ہیں کہ یہ پاکستان کی فائل ہے۔ وہ شخص جب خواب سنا چکا تو تھوڑی دیر بعد اخبار آگیا، اس نے صفحہ اول پر ایک شخص کی تصویر دیکھ کر بابوجی سے عرض کی کہ حضرت یہ وہی شخص ہے جسے میں نے رات خواب میں سرکار دوعالمﷺ کی بارگاہ اقدس سے فائل لیتے دیکھا تھا، وہ محمد علی جناحؒ تھے۔ اس دن سے حضرت بابوجی مسلم لیگ کے حمایتی بن گئے۔
اسی طرح مولانا شبیر احمد عثمانی جنہوں نے قائداعظمؒ کا جنازہ پڑھایا تھا۔ 1946ءکے دوران موچی دروازہ لاہور کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں قیام پاکستان کا اس لئے حامی ہوگیا ہوں کہ خواب میں قائداعظمؒ کی طرف اشارہ کرکے نبی کریمﷺ نے مجھے فرمایا کہ دیکھو اس شخص کی ہرگز مخالفت نہ کرنا، یہ میری مظلوم اُمت کیلئے ہندوستان میں بہت بڑی خدمات سرانجام دے رہا ہے جو اس کی مخالفت کرے گا، وہ پاش پاش ہو جائے گا۔
پیر صاحب مانکی شریف، پیر جماعت علی شاہ صاحب اور دیگر ہندوستان کے مشائخ عظام اور علمائے کرام نے قائداعظمؒ کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے تحریک پاکستان میں اپنا بے مثال کردار ادا کیا اور نوجوانوں نے بھی ہراول دستے کا ثبوت دیا، جس کے بارے میں قائداعظمؒ نے خود یہ کہا کہ مشائخ عظام، علمائے کرام اور نوجوان اس تحریک میں شامل نہ ہوتے تو پاکستان کبھی نہ بن پاتا۔ ہندوﺅں اور انگریزوں کے گٹھ جوڑ اور ان کی سازشوں کے باوجود تحریک پاکستان تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتی چلی گئی اورقرارداد پاکستان کی منظوری کے 7 سال کے قلیل عرصہ میں تحریک پاکستان اپنی منطقی انجام تک پہنچ گئی۔ 27رمضان المبارک جس دن قرآن پاک کا نزول ہوا تھا، اسی دن دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی ریاست ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ معرض وجود میں آئی اور تاریخ میں دو قومی نظریہ کی دوسری ریاست کا شرف حاصل ہوا۔
یاد رہے کہ نظریہ کی بنیاد پر دنیا کی پہلی ریاست حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قیادت میں ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور یہ ریاستیں نظریہ کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتی ہیں۔ پاکستان بنانے والوں نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد یہ یقین کرلیا کہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس پر ہی انہوں نے اکتفا کرلیا اور اپنی نظریاتی میراث آئندہ آنے والی نوجوان نسلوں میں منتقل نہ کی، جس کی وجہ سے بدقسمتی سے قائداعظمؒ کا پاکستان صرف 24 سال کے بعد ہی اپنی سلور جوبلی کا جشن منانے سے پہلے دولخت ہو کر پاکستانی قوم کو ایک عظیم سانحہ سے دوچار کر گیا۔ آج اس واقعہ پر کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن یہ طے نہیں ہوسکا کہ یہ سانحہ کیوں رونما ہوا اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس وقت کی سیاسی قیادت پر، جس نے مشرقی پاکستان کے بارے میں بے اعتنائی کا رویہ اختیار کئے رکھا؟ یا اس وقت کی فوجی قیادت پر جس نے سازشی عناصر کی سرگرمیوں کے سدباب کیلئے مناسب حکمت عملی اختیار نہ کی اور آرمی ایکشن اس وقت کیا گیا جب صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی تھی؟ حالات کو اس نہج تک پہنچانے کیلئے دشمن طاقتوں نے متحد ہو کر بنگالی عوام کے ذہنوں میں مغربی پاکستان کیلئے نفرت کے بیج بوئے اور انہیں بغاوت پر آمادہ کیا، کسی نے حقوق کی جنگ لڑی اور تو کسی نے مفادات کی، کوئی آزادی کا علمبردار بنا تو کوئی غداری کا مرتکب ٹھہرا، کوئی منظر پر رہا تو کوئی پس منظر میں۔