بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ شیخ محمد عبداللہ نے قائداعظمؒ کو کشمیر کا سفر کرنے کی دعوت دی تھی۔ شیخ عبداللہ نے اپنے قریبی ساتھی خواجہ غلام محمد صادق نائب صدر اور مولوی محمد سعید جنرل سیکرٹری نیشنل کانفرنس کو قائداعظمؒ کی خدمت میں لاہور بھیجا تھا کہ قائداعظمؒ کشمیر تشریف لائیں۔ قائداعظمؒ نے اپنے معتمد ساتھی چودھری غلام عباس سے ٹیلی فون پر مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا ”بسم اللہ! تشریف لائیں۔“ قائداعظمؒ 5مئی 1944ءکو سیالکوٹ سے سوچیت گڑھ کے سرحدی قصبہ سے جموں کی سرحد میں داخل ہوئے۔ شیخ محمد عبداللہ کی طرف سے بخشی غلام محمد اور مولوی سعید استقبال کیلئے موجود تھے۔ اور مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس اپنے قریبی ساتھی اے آر ساغر اور کارکنوں کے ساتھ بھی استقبال کیلئے موجود تھے۔ قائداعظمؒ کا پررونق و پرجوش جلوس جموں شہر کی بڑی سڑکوںسے گزر کر ریڈیڈنسی سڑک پر واقع دو کمرہ کے ڈاک بنگلہ پر ختم ہوا۔
یہاں پر سڑک سے لے کر ڈاک بنگلہ کی سیڑھیوں تک 20فٹ کے فاصلہ پر گلاب کے پھولوں کی لڑیوں اور محبت سے بنا راستہ دیکھ کر قائداعظمؒ نے خوشی میں فرمایا ”اوہ یہ جنت ہے۔“ قائداعظم نے ڈاک بنگلہ کے ساتھ ہی عید گاہ میں جلسہ عام سے خطاب میں فرمایا۔ اگلے دن قائداعظمؒ سری نگر کیلئے روانہ ہوئے۔ چودھری غلام عباس اور اے آر ساغر انکے ہمراہ تھے۔ جموں سے سری نگر کا دو سو میل کا فاصلہ دو دنوں میں طے ہوتا تھا۔ پیر پنجال کے قدموں میں واقعہ بانہال کے قصبہ کے ڈاک بنگلہ میں قائداعظم نے قیام کیا۔ اگلی صبح انہوں نے پیر پنجال کی تیرہ ہزار فٹ کی بلندی عبور کی اور پرلی طرف وادی کشمیر میں اترے۔ یہاں سے کشمیر کی وسیع وادی۔ سر سبز و شاداب کھیتوں، گل لالہ اور بادام کے درختوں کے سفید شگوفوں سے سجی اپنی دلکشی لٹا رہی تھی۔ ہزاروں شہری سڑک پر استقبال کیلئے آئے تھے۔
قائداعظم سیدھے سری نگر کے پرتاب پارک میں پہنچے جہاں پر شیخ عبداللہ نے انکے لے استقبالیہ جلسہ کا اہتمام کیا تھا۔ شیخ عبداللہ ایک تذبذب میں مبتلا تھے کہ وہ کشمیری نژاد جواہر لال نہرو کے لسانی اور کانگریس کے سیکولر سیاسی رشتے میں بندھے تھے لیکن استقبال آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر محمد علی جناح کا کر رہے تھے اس تذبذب پر شیخ محمد عبداللہ نے یوں قابو پایا کہ استقبالیہ خطاب میں کہا ہم مسٹر محمد علی جناح (قائداعظم نہیں کہا) کا استقبال ایک معزز مہمان کی حیثیت میں کر رہے ہیں۔ قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کی خیرمقدمی تقریر کے جواب میں اپنے خطابات میں فرمایا ”آپ نے میرا جو شاہانہ استقبال کیا ہے میں اس کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ استقبال محمد علی جناح کا استقبال نہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔“ قائداعظمؒ نے اپنے خطاب میں ہندوستان کے مسلمانوں کی جدوجہد تحریک پاکستان کا مناسب ذکر کرنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کو اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔ یہاں سے قائداعظم ایک دوسرے خوبصورت مقام درگجن میں تشریف لے گئے۔ یہاں پر مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس کے استقبالیہ جلسہ میں خطاب کیا اور قیام کیلئے اپنے ہاﺅس بوٹ میں تشریف لے گئے۔ قائداعظم دو ماہ تک سری نگر میں قیام پذیر رہے۔ انہوں نے ہر طبقہ زندگی اور سیاست کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان سے تبادلہ خیال کیا۔
قائداعظمؒ نے اپنے ہاﺅس بوٹ میں شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کی ملاقات بھی کرائی لیکن شیخ عبداللہ کانگریس کے سیاسی رشتے سے الگ ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ شیخ عبداللہ اپنے ساتھیوں کے ذریعے سری نگر کے مشہور امر سنگھ کلب میں قائداعظمؒ کو مدعو کیا۔ وہاں پر قائداعظمؒ سے شیخ عبداللہ کے ساتھی جیا لال کی قیادت میں کارکنوں نے کھل کر گفتگو کی۔ بڑے دلچسپ سوالات و جوابات ہوئے۔ قائداعظمؒ نے سوال کیا کہ کتنے غیر مسلم نیشنل کانفرنس میں شامل ہوئے ہیں۔ جیا لال اس سوال پر چپ ہو گئے کیونکہ کشمیر میں 98 فیصد مسلمانوں کی آبادی میں غیر مسلم آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ ان میں سے بھی جیال لال کے دو تین ساتھیوں کے سوا کوئی بھی نیشنل کانفرنس میں شامل نہیں ہوا تھا۔ جموں کے صوبہ میں مسلمانوں کی 67 فیصد آبادی اور ہندوﺅں کی 33 فیصد آبادی میں نیشنل کانفرنس کا وجود ہی نہیں تھا۔ 26 جون 1944ءکو پتھر مسجد سری نگر میں مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اپنا فیصلہ صادر فرمایا کہ ”کشمیری مسلمان اپنی جماعت مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں۔ اقلیتوں حمایت بھی حاصل کریں۔“ قائداعظم نے شیخ عبداللہ کی تھیوری کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شیخ عبداللہ کی سیاسی وہ سیاست ہے جو کانگریس ہندوستان میں مسلمانوں سے کرتی ہے۔ یہ منافقت کی سیاست ہے۔ میں منافقت کی سیاست نہیں کرتا۔ چودھری غلام عباس جو سالانہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اور میرواعظ یوسف شاہ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کو مخاطب کرتے ہوئے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ ”غلام عباس ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ کی ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں اور میری ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں۔“ قائداعظمؒ نے جولائی کے آغاز میں سری نگر سے واپسی کا سفر اوڑی مظفر آباد کے راستے اختیار کیا۔ سوپورہ، بارہ مولہ اور اوڑی میں مسلم کانفرنس کے استقبالیہ جلسوں سے قائداعظمؒ نے خطاب کیا۔ مظفر آباد میں مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے قائداعظمؒ کا استقبال کیا۔ اگلے ہی روز قائد اعظم نے خود اپنی طرف سے کارکنوں کے اعزاز میں ضیافت کا انتظام کیا اور پھر مظفر آباد سے راولپنڈی کی طرف روانہ ہو گئے۔