اِس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ قائداعظم نے 1937 سے 1947 تک تحریک پاکستان کی آخری فیز کے دوران اور 14 اگست 1947 کو گورنر جنرل پاکستان کے طور پر حلف اُٹھانے کے بعد 11 ستمبر 1948 کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنی سینکڑوں تقاریر میں مسلمانوں کی قومی اُمنگوں کے مطابق پاکستان میں مسلم معاشرے پر مبنی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی اور اِس سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں برطانوی حکومت ہند ، متحدہ ہندوستان کے ویژن کی حامی ہونے کے باوجود دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کو ہندو اکثریتی اور مسلمان اکثریتی صوبوں پر مثتمل دو آزاد اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم کرنے پر مجبورہوئی ۔ قائداعظم چونکہ ہندوستان میں آخری وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریس کے صدر جواہر لال نہرو کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے قیام پاکستان کے قبل ہی پاکستان کیخلاف ہونیوالی سازشوں سے بخوبی آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ پاکستان فیڈریشن جن صوبوں میں قائم ہونے جا رہی تھی وہاں آبادی کے حوالے سے پاکستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی اقلیتوں پر مثتمل ہوگی لہذا، نئی مسلم ریاست کے راستے میں حائل مشکل مراحل کے پیش منظر میں قائداعظم ہندوستان میں مسلمانوں کی قربانیوں کو بھی رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتے تھے اور ہندو کانگریس کی سازشوں باوجود پاکستان کے خواب کی تعبیر کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد و خود مختار ریاست کے طور پر قائم و دائم دیکھنا چاہتے تھے لہذا ، اُنہوں نے پیغمبر اسلام کی میثاقِ مدینہ کی سوجھ بوجھ سے سبق لیتے ہوئے اور سورة الکافرون کی آیت نمبر 6 جس میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " آپ کےلئے آپکا دین اور میرے لئے میرا دین " سے تائید حاصل کرتے ہوئے پاکستانی اقلیتوں کو مساویانہ سیاسی حقوق دینے کا اعلان کیا ۔ گو کہ قائداعظم کے ناقدین کی جانب سے 11 اگست کی تقریر کے متضاد معنی نکالنے کی کوششیں تسلسل کی جاتی رہی ہے جن میں بھارتی دانشورحلقے بل خصوص بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رکن اور بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے علاوہ تحریک پاکستان کے محرکات سے سوجھ بوجھ نہ رکھنے والے کچھ پاکستانی سیکولر حلقے پیش پیش رہے ہیں اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے بدظن کرنے کےلئے قائداعظم کی بے لوث جدوجہد میں جھول تلاش کرنے کےلئے آج بھی متحرک نظر آتے ہیں لیکن اِس اَمر کو بھلانا نہیں چاہئیے کہ پاکستان کے خلاف ہندو کانگریس اور انتہا پسند ہندوﺅں کی سازشوں کے باوجود قائد کے ایفائے عہد کے حوالے سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے مارچ 1949 میں آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے اسمبلی کے قائدین کو یاد کرایا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے متعدد مواقع پر جن خیالات کا اظہار کیا تھا ، قرارداد مقاصد میں اُن تمام افکار کو بخیر و خوبی شامل کر دیا گیا ہے ۔ 12 مارچ 1949 میں آئین ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد کو پاس کیا جس میں امانت و دیانت، گوڈ گورننس اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر میں شامل بیشتر اہم نکات کو بھی قرارداد کا حصہ بنادیا گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی فکر و نظر کوجس خوبی سے تعمیر وطن کے راستے پر گامزن کیا وہ کانگریسی ہندو لیڈرشپ اور جواہر لال نہرو کے ذاتی دوست جنہیں ہندو بھارت کےساتھ اُنکی وفادایوں کے عوض بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنا دیا گیا تھا قائداعظم کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُنہیں یہ علم ہوتا کہ قائداعظم ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہیں اور وہ تین برس سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکیں گے تو وہ تقسیم ہند کے پلان کو ملتوی کر دیتے اور پاکستان نہ بن پاتا ۔ اندریں حالات پاکستانی قوم اور سیاسی لیڈر شپ کو 1971 میں آنجہانی بھارتی وزیر اعظم مسز اندار گاندہی کے بیان جس میں اُنہوں نے مسلمانوں کے بھارت پر ایک ہزار حکومت کرنے کی پاداشت پر پاکستان کو دولخت کرنے کا اعلان کیا تھا پر ہی غور و فکر کر لینا چاہئیے کیونکہ بھارت ، پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد اب کشمیر سے نکلنے والے دریاﺅں پر بے شمار بند باندھ کر پاکستانی کی زرعی اقتصادی قوت کو مفلوج کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے لہذا، یوم قائداعظم مناتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس کا مفہوم سمجھتے ہوئے ہمیں بھی کشمیر پر بے معنی لچک کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کشمیروں کے حق خودارادیت پر مضبوطی سے گامزن ہونے کی ضرورت ہے اور قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اِس سے بہترکوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔ (ختم شد)
قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے محرکات سمجھنے کی ضرورت
Dec 25, 2012